Maktaba Wahhabi

174 - 665
مولانا رحیم آبادی سے اس سوال کا جواب پوچھا گیاتو نہایت سادگی سے جواب دیا: (الحمدللّٰه هوالثناء باللسان لا بالكتابة) 3۔۔۔حضرت مولاناشمس الحق محدث ڈیانوی جب ابوداؤد کی شرح لکھ رہے تھے، ایک حدیث کا مطلب واضح نہیں ہورہاتھا۔حافظ عبداللہ غازی پوری اور شاہ عین الحق پھلواروی سے بھی بات ہوئی اور انھوں نے اس پر غور کیا مگرعقدہ کھل نہ سکا۔مولانارحیم آبادی سے اس کا مطلب پوچھا گیا توانھوں نے اس پر ایسی عمدہ تقریر کی اور اس طرح اس کی شرح بیان فرمائی کہ سب حیران رہ گئے اورعقدہ وا ہوگیا۔مولانا شمس الحق ڈیانوی نے اسے فوراً قلم بند کرلیا اور عربی میں ترجمہ کرکے مولانا رحیم آبادی کودکھایا۔[1] نماز تہجد اللہ تعالیٰ نے مولانا رحیم آبادی کو علم وتحقیق کے ساتھ ساتھ زہد وتقویٰ کی نعمت بھی فراوانی سے عطا فرمائی تھی۔ان سے تہجد کی نماز کبھی فوت نہیں ہوئی۔صحت، علالت، حضر، سفریہاں تک کہ ریل کے سفر میں بھی اس کا التزام رہا۔جب بیماری نے زیادہ غلبہ پالیا تو بستر پر ہی تہجد کی نماز ادا فرمانے لگے تھے، روزانہ قرآن مجید کے دویا تین پارے بھی پڑھ لیتے۔نماز نہایت خشوع وخضوع سے پڑھتے۔نماز میں ان پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان (أَنْ تَعْبُدَ اللّٰه كَأَنَّكَ تَرَاهُ) کی کیفیت طاری ہوجاتی۔دیکھنے والے بھی اس کیفیت سےراحت محسوس کرتے۔[2] مولانا رحیم آباد کاجوانی کازمانہ تھا کہ مولوی لیاقت علی نے اطلاع دی کہ موضع رگھے پورہ میں تبلیغ کے لیے جانا بہت ضروری ہے۔چنانچہ ان کی تحریک پر اسی وقت رحیم آباد سے روانہ ہوگئے۔دربھنگا تک ریل پر آئے۔اس سے آگے رگھے پورہ تک بیس میل کافاصلہ پیدل طے کیا۔وہاں چند روزوعظ وتبلیغ کاسلسلہ جاری رہا اورلوگ ان کے انداز کلام اورطریق وعظ سے بہت متاثر ہوئے اور احکامِ شریعت کی پابندی کا عمل جاری ہوا۔مولانا کو چائے نوشی کی عادت تھی اوربڑے شوق اور اہتمام سے چائے پیتے تھے۔مگر رگھے پورہ میں نہ چائے کے لیے پیالی نہ طشتری۔نہ کسی کو وہاں چائےپینے کی عادت۔اپنے دست مبارک سے خود ہی مٹی کی ہانڈی میں چائے بناتے اورمٹی کےپیالے میں نوش فرماتے۔اس چائے کی لذت کو عمر بھر یاد رکھا۔ [3]
Flag Counter