عاشقاں از ہیبت تیغ تو سر پیچیدہ اند جائی بے چارہ راچوں دیگراں پنداشتی ” حافظ محمد صدیق صاحب کے اس مضمون سے مجھے وہ صحبت یاد آگئی۔ایک طرف مولانا شمس الحق ہیں، دوسری طرف مولانا حافظ عبداللہ(غازی پوری) تیسری طرف مولانا شاہ عین الحق، چوتھی طرف مولانا رحیم آبادی وغیرہ حضرات جلسہ آرہ میں تشریف فرماتھے۔۔۔یہ لوگ خود تو مزے میں جاپہنچے مگر ہم کو بدمزہ کرگئے۔آہ! غالب ہے نہ شیفتہ نہ نیر باقی وحشت ہے نہ سالک ہے نہ انور باقی حالی اب اسی کوبزم یاراں سمجھو یاروں کے جو داغ ہیں دل پر باقی مشکل مسائل کی عقدہ کشائی مولانارحیم آبادی کاعلم ہروقت تازہ رہتاتھا۔وہ نہایت حاضر جواب تھےاوربارگاہِ خداوندی سےذہن بےحدرساپایاتھا۔حضرت شا ہ عین الحق پھلواروی فرمایا کرتے تھے کہ کوئی بھی مشکل عبارت ہو، اس کا صحیح مطلب وہی ہوتا تھا جو مولانا رحیم آبادی بیان فرماتے تھے۔اس سلسلے کے بہت سے واقعات میں سے تین واقعات یہاں درج کیے جاتے ہیں۔ 1۔۔۔مولانا عبدالسلام مبارک پوری امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں”سیرت بخاری“ کے نام سے کتاب لکھ رہے تھے کہ ایک مقام پر ایک عبارت کا صحیح مفہوم ذہن میں نہیں آرہا تھا۔حضرت حافظ عبداللہ غازی پوری، مولانا شمس الحق ڈیانوی، اور شاہ عین الحق پھلواروی اوربعض دیگرحضرات علماء سے رجوع کیا گیا لیکن جوہرمقصود ہاتھ نہ آیا۔اس سے کچھ عرصہ بعد مولانارحیم آبادی پٹنے تشریف لے گئے اور اس عبارت کامطلب ان سے پوچھا گیا توفرمایا یہاں کوئی جملہ یا لفظ حذف نہیں ہوا۔مطلب بالکل صاف ہے اور وہ یہ ہے۔مولانا کی وضاحت سے مشکل حل ہوگئی۔ 2۔۔۔مولانا عبدالسلام مبارکپوری نے”سیرتِ بخاری“ لکھنا شروع کی تو وہ پریشان ہوئے کہ حضرت امام نے بخاری شریف کے آغاز میں حمد کیوں نہیں لکھی۔۔۔؟اس کاکیا جواب ہوسکتاہے؟ |