ساشعر کس شاعر کا ہے۔ان کےسوانح نگار فضل الرحمٰن سلفی لکھتے ہیں: ” مولانا نے مرض الموت میں خود ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں اور ثناء اللہ ٹرین سے سفر کررہے تھے۔رات کسی طرح کاٹنی تھی۔میں نے ثناء اللہ سے کہا کہ سنتا ہوں تم کو بہت اشعار یاد ہیں۔کیوں نہیں ہم لوگ بیت بازی کریں، سفر آسان ہوجائے گا۔وہ تیار ہوگئے اور ہم لوگوں کی بیت بازی شروع ہوگئی۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کو اشعار بہت یاد ہیں۔لیکن ایک خامی ابھی بھی ہے۔اشعار تو یاد ہیں لیکن کون سا شعر کس شاعر کا ہے، وہ اکثر یاد نہیں رکھتا۔لیکن میں نے جتنےاشعار پڑھے، ان سب شاعروں کے نام بھی بتادیے۔“[1] مولانا امرتسری کا ایک اندارج مولانا رحیم آبادی کی وفات پر اخبار”اہلحدیث“ کے مختلف شماروں میں بہت کچھ لکھا گیا۔ان میں ایک اندراج مولانا ثناء اللہ امرتسری کا ملاحظہ فرمائیے جو انھوں نے مولانا رحیم آبادی کے بارے میں حافظ محمد صدیق صاحب کےایک مضمون مرقومہ ”اہلحدیث“ مورخہ 12، 19مارچ 1920ء کے آخر میں تحریر فرمایا۔اس اندراج سے مولانا رحیم آبادی کی حیات طیبہ کے بعض دلچسپ وضع دارانہ پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔مولانا امرتسری فرماتے ہیں:" ”میں نے جو بات قابل قدر مولانا مرحوم میں دیکھی(جس کی وجہ سے میں اس وقت زاروزاررورہا ہوں، )یہ تھی کہ آپ دوستوں کے بڑے قدردان تھے اور مخلصوں پر فدا تھے۔ایام جلسہ دہلی میں ایک حجام آپ نے بلایا اوراس سے پیار کی باتیں کیں۔میں نے پوچھا یہ کون ہے؟فرمایا اس کا باپ میرا دوست تھا۔ہم ایام طالب علمی میں اس کےحمام میں نہایا کرتے تھے۔پھر آپ اس کےساتھ اس کے مکا پر بھی گئے اوراس پربہت کچھ نظرعنایت فرمائی۔طبیعت میں غصہ بے حد تھا مگرغیر قائم، چڑھا اوراترا۔مجھے خط میں کبھی مولوی نہ لکھتے بلکہ حبی ثناء اللہ لکھتے۔ایک دفعہ کسی موقعے پرحاضرین کو مذاقیہ فرمایاتم لوگوں نے اس نوجوان کو مولانا کہہ کر خراب کردیا، میں تو کبھی اس کو مولوی بھی نہیں کہتا۔آپ جب ہم کو کسی امر میں ڈانٹتے تومیں یہ شعر پڑھتا، اور ان کی خفگی فوراً ختم ہوجاتی۔ |