چاہتے تھے کہ ان کاجنازہ پڑھ کر انھیں قبرستان میں دفن کیاجائے، لیکن ہندو اپنے مذہب کے مطابق ان کوجلانے پر اصرار کررہے تھے۔بالآخر کلکٹر آیا، اوراس نے فیصلہ کیا کہ مسلمان ان کا جنازہ پڑھ کر لاش ہندوؤں کے حوالے کردیں۔لیکن مسلمان اس پر آمادہ نہ ہوئے، انھوں نے کہا کہ جلانا ہی ہے تو پھر جنازہ پڑھنے کی کیاضرورت ہے۔لاش ہندوؤں کےحوالے کردی گئی۔[1] مولانا نے اودھ بابو کے بارے میں ہندی اور فارسی زبان کے امتزاج سے چند اشعار کہے تھے، جویہاں درج کیے جاتے ہیں۔ان اشعار کا مطلب کچھ اس طرح ہے کہ اودھ بابو کے بغیر جی تڑپ رہا ہے۔وہ ملے تو دل کا غنچہ کھلے۔۔۔اس کی محبت سے نفس کا ہرتارہلتا رہتا ہے۔نہ اودھ بابو جی مجھ سے میرے دردوغم کے متعلق پوچھتا ہے، نہ رگھوناتھ نندن مجھ سےبات کرتاہے۔۔۔نہ کوئی ان سے جاکرعزیز خستہ حال کےبارے میں کچھ کہتاہے۔۔۔اب اُن سے دور ہوجاؤ، افسوس ہے انھوں نے مجھے بےحال کردیا۔ اب اشعار پڑھیے اور شاعر کو داد دیجئے۔ جیرا ترپت بن ترے، یک رہ بہ کنی سویم نظرے ہم راسے تہوکاہے لاج کرت چوں غنچہ شگفتہ بادیگرے جیرا ہمرا ہُترے بنو دارو زلچید نہا اثرے ہے لاگی لگن ایسی کہ بھیو ہرتارنفس مثل شررے نہ بابواودھ جی پوچھت ہیں چوں دردغم من شورہ سرے اورنہ رگھو نندن من موہن دارد زمن بیچارہ سرے نہ کہو کہت ہے جاان سے حالِ عزیز خستہ دروں دور!ان کے اے واے من بے بال وپرے[2] مولانا ثناء اللہ سے بیت بازی میں مقابلہ مولانا رحیم آبادی کوجس طرح علوم دینیہ سے متعلق مختلف اہل علم کی عربی اور فارسی کی عبارتوں کی عبارتیں زبانی یاد تھیں، اسی طرح بے شمار شعراء کے اشعار بھی ازبر تھے اور یہ بھی معلوم تھا کہ کون |