اطلاع دی گئی تو انھوں نے آدمی بھیجا اورلڑکا اپنے گھر پہنچ گیا۔ اس بچے کے بخیریت مل جانے کی خوشی میں یہ لوگ شکرانے کے طور پراپنی کچھ دولت خرچ کرنے کا منصوبہ بنارہے تھے۔مولانا رحیم آبادی سے بات ہوئی تو انھوں نے فرمایا کہ اس خوشی پر اللہ کا بہترین شکر ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جدید طرز عمارت کا ایک دینی مدرسہ قائم کردیاجائے۔چنانچہ مولانا کے مشورے اور تجویز کے مطابق شیخ عبدالرحمٰن اورعطاء الرحمٰن کے ناموں کی مناسبت سے دہلی میں”مدرسہ رحمانیہ“ کے نام سے مدرسہ جاری کردیاگیا، جس میں ملک کے متعددمشہور علمائے کرام اور مدرسین عظام نے خدمات سرانجام دیں اوراس کی افادیت کا دائرہ بہت وسیع ہوا۔اس مدرسے کی تعمیر اس سستے زمانے(1921ء) میں ایک لاکھ روپےکی رقم خرچ ہوئی تھی جو بہت بڑی رقم تھی۔اس مدرسے کا پورا نام”دارالحدیث رحمانیہ“تھا۔اس کے قیام کا مشورہ دینے والے مولانارحیم آبادی تو 17۔مارچ 1917ء کووفات پاگئے۔لیکن اس کی تعمیر اور دیگر ضروریات کی تکمیل سےفراغت پاکر اس کا افتتاح ان کی وفات سے تین سال چار مہینے بعد 19۔جولائی 1921ءکوکیا گیا۔ دارالحدیث رحمانیہ اگست 1947ء تک جاری رہا۔تدریسی، تعلیمی اور انتظامی اعتبار سے دارالحدیث رحمانیہ نے بہت شہرت پائی۔صرف چھبیس برس کی عمرپاکر اگست 1947ء کے خونریز ہنگاموں میں یہ دارالحدیث ختم ہوگیا۔شیخ عطاء الرحمٰن مرحوم کے صاحبزادے شیخ عبدالوہاب آزادی برصغیر کے زمانے میں یہ عمارت اس کےوسیع کتب خانے سمیت جامعہ ملیہ اسلامیہ(دہلی) کے سپرد کرکےکراچی آگئے۔اب یہ تعلیمی ادارہ ایک اورانداز سے جامعہ ملیہ کےتدریسی پروگرام کے مطابق چل رہا ہے۔ شعروشاعری مولانارحیم آبادی کو شعر وشاعری سے بھی دلچسپی تھی۔وہ اپنے عہد میں فارسی، عربی اور اردو کے اچھے شاعر تھے۔ان کا فارسی کلام”حسن البیان“ کے شروع میں شائع ہوا ہے۔اور بھی مختلف مقامات میں ان کے اشعار ملتے ہیں۔ہندی اور فارسی زبانوں میں ملے جلے چند اشعار کا بھی پتاچلتا ہے جو بے حد دلچسپ ہیں۔یہ اشعار انھوں نے ایک شخص اودھ بابو کے بارے میں کہے تھے۔اودھ بابو اصلاً ہندو تھے اور ایک کالج میں اردو اورفارسی کےپروفیسر تھے۔انھوں نےاسلام قبول کرلیا تھا، لیکن عوام میں اس کا اظہار نہیں کیا تھا۔وہ چاہتے تھے کہ ان کا پورا خاندان دائرہ اسلام میں داخل ہوجائے تو قبول اسلام کا اظہار کیاجائے۔اسی اثناء میں مظفر پور میں ان کا انتقال ہوگیا۔اب مسلمانوں اور ہندوؤں میں اختلاف کی فضا پیدا ہوگئی، جس نے تناؤ کی شکل اختیار کرلی۔مسلمان |