میں بگاڑ نہیں پیدا ہونے دیتے تھے۔تفسیر حقانی کے مصنف مولانا عبدالحق صاحب ان کے ہم درس رہ چکے تھے اور ان سے مرشد آباد میں وجوب تقلید کے موضوع پر مناظرہ بھی کیاتھا۔لیکن مولانا ان کو پرانے دوست کے الفاظ سے یاد فرمایا کرتے تھے۔[1] مدرسہ رحمانیہ دہلی برصغیر میں قیام مدارس کے سلسلے میں جماعت اہلحدیث کے خواص وعوام ہمیشہ سرگرم رہے۔ان کی کوششوں سے بے شمار شہروں اور قصبوں میں دینی مدارس جاری ہوئے اور مشہور علماء نے وہاں تدریس کے سلسلے شروع کیے۔دیہات میں بھی لاتعداد درسگاہوں کا قیام عمل میں آیا، جن میں قال اللہ وقال الرسول کی دل نواز صدائیں بلند ہوئیں اور اللہ کے فضل سے اب بھی بلند ہورہی ہیں اور ان شاء اللہ بلند ہوتی رہیں گی۔ دہلی کو اس باب میں بے شبہ مرکزیت حاصل رہی ہے۔یہ شہر ہر زمانے میں جلیل القدر علماء کا محور اور فقید المثال مدرسین کا مسکن رہا ہے۔پرانی تاریخ کوجانے دیجئے، بیسویں صدی عیسوی میں اس شہر میں جن دینی مدارس کا اجراہوا، ان میں مدرسہ رحمانیہ اپنی بہت سی خصوصیات کے اعتبار سے بےحداہمیت رکھتاتھا۔اس مدرسےکے قیام کےاولین مجوز حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی تھے اوراس کے بانی تھے دہلی کے دومخّیر بھائی شیخ عبدالرحمان اورعطاء الرحمٰن۔حضرت مولانا رحیم آبادی کی دہلی میں آمدورفت رہتی تھی۔جیساکہ گذشتہ صفحات میں وضاحت ہوچکی، مولاناممدوح جہاں جید عالم دین تھے، وہاں اچھے خاصے زمیندار اور دولت مند بھی تھے۔پھر اللہ کی راہ میں مال ودولت خرچ کرنے کاجذبہ صادقہ بھی رکھتے تھے۔ان کے ان اوصاف کی وجہ سے لوگ ان سے بہت متاثر تھے اور ان کی بات مانتے تھے۔شیخ عبدالرحمٰن اورعطاء الرحمٰن تو خاص طور سے ان کے عقیدت مند تھے اور انھیں انتہائی قدرکی نگاہ سے دیکھتےتھے۔ ایک مرتبہ مولانا رحیم آبادی کی دہلی تشریف آوری ہوئی۔شیخ عبدالرحمٰن اور عطاءالرحمٰن کےہاں قیام تھا۔اس وقت ان کی کسی خاتون کوکوئی تکلیف تھی جس کےمتعلق خیال ہوا کہ یہ جناتی اثر ہے۔مولانا کی خدمت میں عرض کیا گیا تو انھوں نے تعویذ دے دیا اور مریضہ صحتیاب ہوگئیں۔؟؟؟ اسی اثناء میں یہ حادثہ پیش آیا کہ شیخ صاحبان کا بھانجا گم ہوگیا۔اسے بہت تلاش کیا گیا اور تلاش پر بڑی رقم بھی خرچ ہوئی، لیکن اس کا پتہ نہ چل سکا۔ایک دن کسی نے اس کو بنگال کے ایک ریلوے اسٹیشن”پار بتی پور“ کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہوئے دیکھا اوراسے پکڑلیا۔شیخ صاحب کو دہلی |