خود بڑے دولت مند اور بڑے زمیندار تھے۔ان کا تعلق کھاتے پیتے خاندان سے تھا۔واجبی ضروریات کے بعد پوری آمدنی تحریک مجاہدین میں صرف فرمادیتے تھے۔مرحوم کے یہ خیالات تحریک عدم تعاون سے برسوں پہلے تھے۔‘‘ ”دوسرا طریقہ انگریزی مال کے بائیکاٹ کا تھا۔خود مولانا مرحوم گاڑھا کھدر گھر کا بنا ہوا پہنتے۔سردیوں میں کشمیری شال استعمال فرماتے۔قلم سے لکھتے۔نب اور انگریزی قلم کا استعمال سخت ناپسند فرماتے۔ مولانا ثناء اللہ مرحوم تبلیغی امور میں ان کے شریک کار تھے۔مولانا نے تبلیغ کے لیے آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کی تاسیس کی اور مدرسہ احمدیہ سلفیہ آرہ(بہار) کی سرپرستی فرمائی۔ساتھ ہی انگریز کے خلاف جہاد کا محاذ بھی برابر کھولے رکھا۔‘‘ ”مولانا کے مزاج میں عجیب تنوع تھا۔ایک طرف وہ ان حضرات کےساتھ اہلحدیث کانفرنس کے سٹیج پر کام کرتے، دوسری طرف مولانا فضل الٰہی وزیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ صوفی ولی محمد مرحوم فتوحی والا، اکبرشاہ آف ستھانہ، مولوی الٰہی بخش بمباں والا، قاضی عبدالرحیم صاحب، قاضی عبیداللہ اورقاضی عبدالرؤف (قاضی کوٹ) اور مولانا عبدالقادر قصوری کےساتھ جماعت مجاہدین کا کام کرتے تھے، اور یہ کام اس رازداری اور خوب صورتی سے ہوتا تھا کہ انگریز کی عقابی نگاہیں برسوں اس کا سراغ نہ لگاسکیں۔معلوم نہیں یہ اطلاع کہاں تک درست ہے کہ مرحوم کی گرفتاری کے احکام اس دن پہنچے، جب مرحوم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوکر جنت کے دروازے پر پہنچ کر داخلے کی اجازت کے لیے دستک دے رہے تھے۔(طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ) کی آواز کے منتظر تھے۔پولیس جنازہ دیکھ کر واپس آئی۔(اللّٰه مَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَ أَدخِلهُ الجنّة) آمین ” میں نے مولانا مرحوم کو پہلی دفعہ وزیرآباد میں دیکھا۔جمعے کے دن مولانا فضل الٰہی صاحب کے ہاں کھاناتناول فرماکر مسجد اہلحدیث میں آئے۔مرحوم حضرت الاستاذ الامام مولانا الشیخ حافظ عبدالمنان صاحب نے منبر خالی فرمادیا۔میری عمر غالباً اس وقت دس گیارہ سال ہوگی۔وعظ میں عجیب رقت تھی۔غالباً وعظ اخلاص فی العمل کے موضوع پر تھا۔میں صغر سنی کے باوجود انتہائی رقت محسوس کررہا تھا اور پورے مجمعے پر یہی کیفیت طاری تھی۔ ”اس کے بعد مولانا کئی دفعہ تشریف لاتے رہے، زیارت ہوتی رہی، لیکن بچپن کی وجہ سے استفادے کی جراءت نہ ہوسکی۔( وَكَانَ أَمْرُ اللّٰه قَدَرًا مَّقْدُورًا) ” پھر میں 16۔1917ء میں حصولِ تعلیم کے لیے دہلی آیا۔وہاں بھی زیارت کا موقع ملتا رہا۔عموماً مجلس میں خاموشی ہوتی۔یہ مبارک مجلس گلہ اورقہقہہ دونوں سے خالی ہوتی۔آخری زیارت علی |