کرتار کے ذریعے سے بلایا۔تعلیم کے لیے حافظ عبداللہ غازی پوری کے سپرد کیا جومدرسہ ریاض العلوم میں پڑھاتے تھے اور میرزاد ولی اللہ بیگ سے فرمایا کہ عنایت اللہ کو بنوٹ سکھادیجئے۔ مولانا رحیم آبادی جب دہلی تشریف لاتے تو شیخ عطاء الرحمٰن اورشیخ عبدالرحمٰن کے ہاں پھاٹک حبش خاں میں قیام فرماتے۔جمعہ پڑھاتے تو خطبے میں سورہ ق اول سےآخر تک پڑھتے اور مختصر سی تقریربھی فرماتے۔ ”پھر وہ اورحافظ عبداللہ غازی پوری اوردوسرے علماء ورؤسا ئے دہلی اوکھلا میں جمع ہوتے۔وہاں بنوٹ کےکرتب دکھائے جاتے، جنھیں دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔انھیں اورحافظ عبداللہ غازی پوری کومجاہدین سے بڑی الفت تھی اور جہاد کابہت شوق تھا۔اسی خیال سے وہ موزوں جوانوں کو منتخب کرکے ان کے لیے سپاہیانہ فنون سے کے سیکھنے کاانتظام فرمایا کرتے تھے۔گھرسے آسودہ حال تھے۔ہزاروں روپےجماعتی کاموں میں خرچ کیے۔مولانا شبلی کی سیرۃالنعمان پر جوانتقاد انھوں نے”حسن البیان“ کے نام سے شائع کیا، اس کا جواب آج تک کوئی نہ دے سکا۔“[1] مولانا محمد اسماعیل سلفی کے چند ارشادات حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کی محققانہ تصنیف”حسن البیان فیما فی سیرۃ النعمان“ جو مولاناشبلی کی کتاب پر” سیرۃ النعمان“ کے جواب میں معرض اشاعت میں آئی تھی، اس کاتیسرا ایڈیشن 1966ء میں اہلحدیث اکادمی لاہور نے شائع کیا۔اس پر طویل مقدمہ جو 39 صفحات میں پھیلا ہوا ہے حضرت مولانا محمداسماعیل سلفی مرحوم نے لکھا۔مقدمہ بہت سے علمی فوائد کااحاطہ کیے ہوئے ہے۔اس کے آخر کی چندسطریں ذیل میں درج کی جاتی ہیں جن کا تعلق مولانا رحیم آبادی کے سیاسی رجحانات، انگریز دشمنی اور جماعت مجاہدین کی مالی اعانت سے ہے۔ملاحظہ فرمائیے: ” مولانا رحیم آبادی کے حقیقت پسند مزاج نے محسوس فرمایا کہ مذہبی، فقہی اورفرقہ وارانہ منازعات کی اصل علت ہندوستان میں انگریز کی بالادستی ہے جب تک یہ دیوملک میں کارفرما ہے، ملک میں امن ممکن نہیں۔اس ضمن میں مولانا کے دو پروگرام تھے۔سیاسی اورتبلیغی۔سیاسی پروگرام پر عمل کے دو طریقے تھے۔اول تحریک مجاہدین کی سرپرستی جو اس وقت انگریز کے مظالم کی وجہ سے انڈر گراؤنڈ ہوچکی تھی، اکابر دیوبند اس سے تعلق توڑ چکے تھے، اکابر پٹنہ اپنی زندگیاں اس راہ میں وقف کرچکے تھے اورلاکھوں روپے مولانا رحیم آبادی مرحوم کی وساطت سے تحریک کوملتے تھے۔مرحوم |