Maktaba Wahhabi

165 - 665
ہوگیا۔کسی نے اس کاذکر کیا توفرمایا اس وارنٹ کا کیا ہے، اب تو اصلی وارنٹ جاری ہوگیا ہے۔ خفیہ پولیس کا ایک افسر مولانا کا معتقد تھا۔وہ ان کےایام مرض میں دوسرے تیسرے دن ان کے گھر آتا اور انھیں دیکھ جاتا تھا۔بالآخر اسی حالت میں مولاناوفات پاگئے۔ مولانا کی وفات کے بعد بھی مجاہدین کی امداد کا سلسلہ باقاعدہ چلتا رہا۔اس کا انتظام ان کے عقیدت مندوں اورشاگردوں(حافظ عبداللہ اوربابوعبداللہ وغیرہ) نے سنبھال لیا تھا۔کچھ عرصے بعدڈاکٹر سیدمحمد فریدصاحب نے اس خدمت کی ذمہ داری قبول کرلی۔ان کی دعوت پرپٹنہ سےمولانا عبدالخبیرصاحب دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگا تشریف لائے، وہاں شہر اور اس کے قرب وجوارکےبہت سےلوگ حاضر ہوئےاور انھوں نےمولاناعبدالخبیرکےہاتھ پربیعت کی۔[1] مولاناغلام رسول مہر کی ایک تحریر حافظ عنایت اللہ اثری مشہورعالم دین تھے جوجماعت مجاہدین سے تعلق رکھتے تھے۔ان کااصل مسکن وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ تھا۔حضرت حافظ عبدالمنان وزیرآبادی کے شاگرد تھے۔بہت سی عربی اوراردو کتابوں کے مصنف تھے۔ان کے بعض افکار سے اہل حدیث علماء کرام نے اختلاف کابھی اظہارکیاہے۔وزیر آباد سےوہ گجرات چلے گئےتھے اور وہاں کی جامع مسجداہلحدیث کےخطیب مقرر کرلیےگئے تھے۔جماعت مجاہدین سے وابستگی کے نتیجے میں انگریزی حکومت نے ان کو بے حداذیتوں سےدوچار کیا۔انھوں نے 10۔اور11مئی 1980ء کی درمیانی شب کوگجرات میں وفات پائی۔اس کے ضمن میں مولانا غلام رسول مہر نے اپنی تصنیف”سرگزشت مجاہدین“ میں حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کاتذکرہ کیا ہے۔یہ کتاب 1956؁ء میں شائع ہوئی تھی۔اس وقت حافظ عنایت اللہ اثری زندہ تھے۔مہرصاحب تحریر فرماتے ہیں: ”حافظ عنایت اللہ وزیر آباد کے رہنے والے اور حافظ عبدالمنان وزیرآبادی کے شاگرد ہیں۔غالباً 1913ء سے جماعت مجاہدین کے ساتھ ان کی وابستگی کا آغاز ہوا۔مارچ 1913ء میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا اجلاس بمقام امرتسر منعقد ہوا تھا۔اس میں مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی بھی تشریف لائے۔[2] اجلاس کے بعد وزیر آباد کو بھی اپنے قدوم سے مشرف فرمایا۔حافظ عنایت اللہ اس زمانے میں حافظ عبدالمنان سے پڑھتے بھی تھے اور اپنی دکان پر درزی کا کام بھی کرتے تھے۔مولانا رحیم آبادی نے بھی کچھ کام دیا، وہ پورا کردیاتو مولانا رحیم آبادی بہت خوش ہوئے۔دہلی پہنچ
Flag Counter