Maktaba Wahhabi

163 - 665
دربھنگا میں فساد کا خطرہ ہندو مسلم فساد کا خطرہ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کے زمانے میں اس علاقے میں کئی دفعہ ابھرا، لیکن ہر دفعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہر قسم کی گزند سے محفوظ رکھا۔مولانا ممدوح کی وفات سے چند ماہ پہلے 1917ء میں شہر آرہ ہولناک فساد کی زد میں آگیا۔اس وقت اچانک بڑے خوفناک حالات پیدا ہوگئے تھے۔ہندو بھی مسلمانوں کی طرح مسلح ہوکر میدان میں نکل آئے تھے اور انگریزی حکومت بھی لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا تھی۔اس وقت بھی بیماری کے باوجود مولانا ممدوح نے اپنا فرض ادا کیا اور مسلمانوں کی امداد کے لیے کمربستہ ہوئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندو پیچھے ہٹ گئے اور خطرات کے بادل چھٹ گئے۔ انہی دنوں دربھنگاہ شہر میں مسلمانوں پر ہندوؤں کے حملے کی افواہ پھیل گئی اورفضا پر خوف وہراس کے بادل تن گئے۔مسلمانوں نے منظم ہوکر ایک اجلاس کا اہتمام کیا۔مولانا بیمار بھی تھے اور انتہائی کمزوری بھی تھے۔اجلاس میں تقریر کے لیے علاقے کے مسلمانوں کا کوئی لیڈر سامنے نہ آیا۔بالآخر کسی نہ کسی طرح مولانا ممدوح ہی سٹیج پر آئے اورتقریر شروع کی تو اللہ نے مدد فرمائی اور دوگھنٹے نہایت جوش مگر توازن کےساتھ خطاب کیا جس کی وجہ سے مسلمانوں میں حوصلہ پیدا ہوا اور فساد کی فضا ختم ہوگئی۔ اسی طرح او ربھی متعددمقامات میں خدشات ابھرے او رمولانا کی کوشش سے حالات نے اعتدال کی صورت اختیار کرلی۔ جماعت مجاہدین کی امداد مولانا رحیم آبادی کا اس جماعت مجاہدین سے بھی گہرا تعلق تھا جو برصغیر کی آزادی اور اس خطہ ارض میں اسلامی نظامِ حکومت کی تنفیذ کے لیے سید احمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید نے قائم کی تھی۔یہ اپنی نوعیت کی برصغیر میں اولیں جماعت تھی۔جس نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے آزاد قبائل میں جاکر باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کی۔ابتداء میں اس کی ٹکر پنجاب کی سکھ حکومت سے ہوئی، جس کی باگ ڈوررنجیت سنگھ کے ہاتھ میں تھی۔بہت سی لڑائیوں کے بعد سید احمد اور مولانا اسماعیل دہلوی 6 مئی 1831ء کو اپنے سینکڑوں مجاہدوں کے ساتھ بالاکوٹ کے میدان میں جام شہادت نوش کرگئے تو بقیۃ السلف حضرات نے ازسر نو اس جماعت کی تنظیم کی اور پھر باقاعدہ طور سے اس جماعت نے اپنی جہادی سرگرمیوں کارخ ہندوستان کی انگریزی حکومت کی طرف پھیر دیا۔
Flag Counter