کے مفادات کو ترجیح دیتے تھے اور یہ ایک فطرتی بات تھی۔ لیکن جب مسئلہ مسلمان اور غیر مسلمان کا سامنے آجاتا تو وہ ہر صورت میں مسلمان کی حمایت کرتے تھے۔ وہ ذاتی اور خاندانی اعتبار سے اپنے علاقے کی ایک اہم شخصیت تھے۔اللہ نے ان کو اس دور کے معاشرے میں بڑا اعزاز بخشا تھا اور وہ علمی وسیاسی اور قومی مسائل کے حل وکشود کے سلسلے میں مرجع عوام تھے اور عوام کے اعتماد پر پورا اترتے تھے۔1911ءکی بات ہے کہ10۔محرم کو تعزیہ کا جلوس اور ہندوؤں کے تہوار”درگاہ پوجا “کا جلوس اتفاق سے دونوں ایک دن میں آگئے۔موضع تاج پور میں اس مسئلے نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان زبردست تناؤ کی شکل اختیار کرلی۔ شیعہ کہتے تھے کہ 10۔محرم کو ہم ضرور جلوس نکالیں گے۔یہ ہمارا مذہبی اعتبار سے مقرردن ہے۔ ہندوؤں کو اصرار تھا کہ درگاہ پوجا ہمارے دھرم کا معاملہ ہے ہمارا جلوس وقت مقررہ پر ضرور نکلے گا۔اب ظاہر ہے دونوں مذاہب کے جلوس ایک ہجوم کے ساتھ گلیوں میں آئیں گے تو فساد کا خطرہ پیدا ہوگا۔ یہ نہایت نازک مسئلہ اور فریقین کے لیے خالص مذہبی معاملہ تھا اور پریشانی کا باعث۔۔۔!ضلعی حکام کو پتا چلا تو وہ بھی تاج پور پہنچ گئے۔ اب ضلعی حکام کی تجویز سے فریقین کے بیانات لینے کے بعد طے یہ ہوا کہ مسلمان ہندوؤں میں سے اور ہندو مسلمانوں میں سے ایک ایک ثالث منتخب کریں اور یہ دونوں ثالث جو فیصلہ کریں، فریقین اس فیصلے کو تسلیم کر لیں۔ ہندوؤں کو معلوم تھا کہ مولانا عبدالعزیز تعزیے کے مخالف ہیں، اس لیے انھوں نے مولانا کو اپنا ثالث منتخب کر لیا۔ ضلع کے حاکم اعلیٰ نے مولانا سے تنہائی میں بات کی تو انھوں نے حاکم سے فرمایا آپ جو فیصلہ کرنا چاہتے ہیں خود ہی کریں، ثالثوں کے ذریعے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ساتھ ہی اسے رائے دی کہ تعزیے کا جلوس نکلنا چاہیے۔ چنانچہ حاکم ضلع نے یہی فیصلہ کردیا جومولانا چاہتے تھے۔ جب لوگوں کو مولانا کی رائے کا علم ہوا تو ان میں سے بعض حضرات نے مولانا سے کہا کہ آپ تو تعزیے کے جلوسوں کو خلاف شرع قرار دیتے ہیں، آپ نے اس موقعے پر شیعہ حضرات کی حمایت کیوں کی؟ مولانا نے جواب دیا: میں تعزیے کا سخت مخالف ہوں اور اس جلوس کو غیر شرعی قراردیتا ہوں، لیکن اس معاملے کی حیثیت دوسری ہے۔ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اسم گرامی کے مقابلے میں کالی ماتا اور درگاہ کا نام ہونے کو ہرگز ترجیح نہیں دے سکتا۔[1] |