کے مختلف شہروں میں چوبیس سالانہ جلسے ہوئے۔ان میں سے چارجلسوں کی صدارت کا اعزاز مولانا ممدوح کو حاصل ہوا، اور وہ جلسےمندرجہ ذیل تھے: (1)۔۔۔امرتسر :دوسرا سالانہ جلسہ منعقد 14، 15، 16مارچ 1913ء 2۔۔۔علی گڑھ:چوتھا سالانہ جلسہ منعقد 13، 14، 15مارچ 1915ء 3۔۔۔بنارس :پانچواں سالانہ جلسہ منعقد 25، 26، 27فروری 1916ء 4۔۔۔کلکتہ :چھٹا سالانہ جلسہ منعقد 9، 8، 7مارچ 1917ء بنارس کے جلسے میں اہل حدیث کے علاوہ بے شمار احناف بھی سامعین میں موجود تھے، جن میں احناف کے چند علماء بھی تھے۔ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کی تقریر اس درجہ پر اثر اور مدلل تھی کہ علمائے احناف پکار اٹھے کہ یہ شخص اس عہد کاامام غزالی ہے۔ اب قدرے تفصیل سے کانفرنس کے جلسہ منعقدہ پشاور کے متعلق چند باتیں سنیے۔ یہ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا تیسرا سالانہ جلسہ تھا جو خان بہادر ارباب عبدالرؤف خاں(رئیس پشاور) کے زیر صدارت29، 28، 27مارچ1914ء(مطابق 30، 29 ربیع الثانی و یکم جمادی الاولیٰ 1332ھ) کو ہوا تھا۔ یہ سطور 8۔جنوری2007(مطابق 17ذوالحجہ1427ھ) کو لکھی جا رہی ہیں۔اس اعتبار سے اس جلسے کے انعقاد پر عیسوی تاریخ کے حساب سے 93سال اور قمری حساب سے 96برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے یعنی پانچ سال کم ایک صدی اس طویل مدت میں دنیا بدل گئی اور کہیں سے کہیں چلی گئی۔کم سے کم تین پرانی تسکین ختم ہو گئیں اور تین نئی نسلوں نے ان کی جگہ لے لی۔اس وقت صوبہ سرحد کے پٹھان دینی تعلیم سے زیادہ شناسائی نہیں رکھتے تھے اور وہابیوں کے سخت مخالف تھے۔ اس پورے علاقے میں شاید گنتی کے چند اہل حدیث ہوں گے، ان میں بھی غالباً کوئی بڑا اور بااثر عالم دین نہ ہوگا۔اُس وقت وہاں اہل حدیث کے جلسے کا انعقاد بہت مشکل کام تھا۔ چنانچہ جلسے کا اعلان ہوتے ہی حدیث و سنت سے زیادہ ناآشنا پٹھانوں نے ہنگامہ بپا کردیا اور اپنے طور پر تہیہ کر لیا کہ وہابیوں کا جلسہ نہیں ہونے دیں گے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ ان دنوں حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی بیمارتھے اور ان کا پروگرام جلسے میں تشریف لانے کا نہیں تھا۔ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے ناظم اعلیٰ مولانا ثناء اللہ امرتسری تھے اور جلسے کے منتظمین ان کی ہدایات کے مطابق کام کر رہے تھے، لیکن جب ان حضرات کو مقامی طور سے پٹھانوں کی شدید مخالفت اور ہنگامہ آرائی کا پتا چلا تو یہ انتہائی پریشان ہوئے۔اب فیصلہ کیا گیا کہ حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کو ہر صورت میں پشاور بلایا جائے۔چنانچہ مولانا کو تمام صورت حال سے مطلع کیا گیا، اور یہاں تشریف لانے کی درخواست کی گئی۔ ناسازی طبع کے باوجود جماعتی خدمت کی |