Maktaba Wahhabi

159 - 665
سال مختلف مقامات میں ہوا کرتا تھا۔ اس کی نوعیت کا نووکیشن کی سی تھی، جس طرح یونیورسٹیاں اپنا کانوکیشن منعقد کرتی ہیں اور فارغ التحصیل طلبا کو سرٹیفکیٹ یا اسناد دیا کرتی ہیں۔یہ جلسہ مذاکر ہ علمیہ بھی اسی نوعیت کی چیز تھی۔اس میں ہندوستان کے بڑے بڑے علماءمدعو کیے جاتے تھے۔ فارغ التحصیل طلبا کی دستار بندی ہوتی تھی اور انھیں اسناد فراغت دی جاتی تھیں۔ جو سب سے بڑا اور مشہور عالم ہوتا تھا، دستار بندی اس کے ہاتھ سے ہوتی تھی۔وہی فارغ التحصیل طلبا کو خطاب کرتا تھا جس کی نوعیت بعینہ کانووکیشن ایڈریس کی ہوا کرتی تھی۔ جب تک مدرسہ احمدیہ آرہ باقی رہا، اس وقت تک یہ جلسہ عظیم بھی ارکان مدرسہ کی جانب سے نہایت شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہوتا رہا۔ پھر جب اس مدرسے کا باقی رہنا مشکل نظر آنے لگا تو مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی نے اس کو دربھنگا منتقل فرمادیا۔“[1] مدارس کا قیام مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی نہایت مہمان نواز اور پیکر سخاوت تھے۔ ایثار وقربانی میں اپنی مثال آپ تھے، ان کا دسترخوان مہمانوں کے لیے وسیع تھا اور وہ مہمانوں کی خدمت کر کے بہت خوش ہو تے تھے۔ وہ تہجد گزار اور عالی ہمت عالم تھے۔ تبلیغ کے لیے انھوں نے متعدد مدارس جاری کیے۔ ہندوستان میں مسلک اہل حدیث کی مشہور دینی درسگاہوں مثلاً جامعہ احمدیہ سلفیہ لہریا سرائے دربھنگا، مدرسہ اسلامیہ گھونگر مدرسہ عربیہ مدھوبنی اور مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ(قائم شدہ 1208ھ) کی تاسیس مولانا ممدوح کے مبارک ہاتھوں سے عمل میں آئی۔ اس کے علاوہ مدرسہ محمدیہ محمد پور کواری، (ضلع در بھنگا) کے بانیوں میں بھی مولانا شامل تھے۔ مولانا کی علمی فضیلت قابل تعریف تھی۔ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی نے اشاعت دین اور تبلیغ کے ذریعے تحریک اصلاح تجدید کی آبیاری کی اور پورے ہندوستان کو اپنی تگ و تاز کا مرکز بنایا۔[2] خطابت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی جہاں بہت بڑے مدرس، محقق، محدث، مناظر اور مجاہد فی سبیل اللہ تھے، وہاں بہت بڑے خطیب اور مقرر بھی تھے۔تقسیم ہند سے قبل آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے ملک
Flag Counter