آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اخبار”اہل حدیث“میں کئی دفعہ جماعت کے خواص و عوام کو جماعتی تنظیم کی طرف توجہ دلائی، اور اکتوبر 1906ءکی مختلف اشاعتوں میں بالخصوص اس سلسلے میں علمائے اہل حدیث پر زور دیا کہ وہ اسے منظم کرنے کی سعی کریں۔بعض علماء سے اس موضوع پر زبانی بھی گفتگو کی۔دسمبر1906ءمیں مدرسہ احمدیہ آرہ کے”مذاکرہ علمیہ“کا سالانہ جلسہ منعقد ہونے والا تھا، جس میں ملک کے تمام بڑے بڑے علمائے کرام کی شرکت یقینی تھی۔ چنانچہ پروگرام مطابق 22، 23دسمبر1906 ءکو یہ جلسہ منعقد ہوا۔اس جلسے میں حسب معمول جماعت کے تمام مشہور علمائے عظام شریک ہوئے۔اسی موقعے پر باہم مشورے سے”آل انڈیا اہل حدیث کا نفرنس“ کے نام سے جماعتی تنظیم قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اس کے صدر حضرت حافظ عبداللہ غازی پوری کو اور ناظم اعلیٰ مولانا ثناء اللہ امرتسری کو منتخب کیا گیا۔ پورے ملک میں اس تنظیم کو متعارف کرانے اور جماعت کے لوگوں کو اس سے وابستگی پر آمادہ کرنے کے لیے ایک تین رکنی وفد بنایا گیا جو حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی پر مشتمل تھا۔ یہ آج سے ایک صدی سے زیادہ عرصہ قبل کی بات ہے۔ اس وقت موجودہ دور کی طرح ملک میں نہ ریل گاڑیوں کی کثرت تھی، نہ سٹرکیں تھیں اور نہ موٹریں اور کاریں تھیں۔ لوگ یا تو پیدل سفر کرتے تھے یا بیل گاڑیوں پر کہیں آتے جاتے تھے یا اونٹ ان کا ذریعہ آمد ورفت تھے۔ اس زمانے میں ان تینوں بزرگوں نے جو گھر سے آسودہ حال تھے۔ بے شمار شہروں، قصبوں اور دیہات کے سفر کیے، مسجدوں میں گئے، علماء سے گفتگو کی، عوام سے رابطے پیدا کیے، لوگوں کو جمع کر کے ان میں تقریریں کیں، اور انھیں جماعتی تنظیم کے فوائد سے آگاہ کیا اور بکھری ہوئی جماعت کے افراد کو ایک مسلک میں منسلک ہونے کی دعوت دی اور اللہ تعالیٰ نے ان کوکا میابی عطا فرمائی۔اس لیے کہ نیت نیک تھی اور مقاصد بلند تھے۔ مذاکرہ علمیہ ابھی بتایا گیا ہے کہ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا قیام مدرسہ احمدیہ آرہ کے سالانہ ”مذاکرہ علمیہ“کے انعقاد کے موقعے پر عمل میں آیا۔ سوال یہ ہے کہ ”مذاکرہ علمیہ“ کیا شے ہے؟ اس سوال کا جواب جناب عبدالرقیب حقانی ان الفاظ میں دیتے ہیں: ”مذاکرہ علمیہ“ایک قسم کا سالانہ جلسہ تھا جس کو مولانا عبدالعزیز نے قائم کیا تھا اور ہر |