پتا چلتا ہے کہ مناظرے سے پورا ایک ہفتہ فریقین کی تقریریں ہوتی رہیں جو اس علاقے کے بے شمار ہندوؤں اور مسلمانوں نے سنیں۔ اس موقعے پر اہل حدیث اور احناف میں کوئی امتیاز نہ تھا۔آریہ سماجیوں کے مقابلے میں سب ایک تھے۔اہل حدیث اور حنفی علمائے کرام کی تعداد چالیس کے پس و پیش تھی۔ آریہ مناظروں کے جوابات مختلف علمائے کرام نےدئیے۔مولانا رحیم آبادی کے جوابات کا ایک خاص انداز تھا، جس میں انفراد یت کا پہلو نمایاں تھا۔ مناظرے کی رودادکا مرتب اس کا ان الفاظ میں تذکرہ کرتا ہے: ”مولوی صاحبان بلاناغہ چار بچے دن سے نو بجے رات تک برابر مضامین علمی و اخلاقی سے حاضرین کو بہرہ مند کرتے رہے۔جناب مولانا شاہ عین الحق صاحب سابق سجادہ نشین پھلواری اور جناب سید المحدثین مولانا حافظ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کا وعظ سب علمائے کرام کے مواعظ سے پُراثر تھا۔ان کے وعظ سن کر ہندو اور مسلمان اس قدر متا ثر ہوئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔“[1] مناظرہ مرشد آباد متحدہ ہندوستان میں مناظروں کا عام رواج تھا اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی اپنے عہد کے بہت بڑے مناظر تھے۔ احناف کے علماء سے ان کے متعدد موضوعات پر مناظرے ہوئے، جن میں ایک مناظرہ بنگال کے شہر مرشد آباد میں آج سے ایک سو پچیس سال قبل 1305 ھ(1888ء)ہوا۔یہ مناظرہ”وجوب تقلید“کے موضوع پر ہواتھا جو پانچ روز جاری رہا۔ اس میں عام لوگوں کے علاوہ اہل حدیث اور احناف کے بہت سے علمائے کرام نے شرکت کی تھی۔احناف کی طرف سے ہر روز مناظر بدلتے رہے، حتی کہ مولانا ہدایت اللہ منطقی جون پوری اور مولانا عبدالحق مصنف تفسیر حقانی جیسے مشہور علمائے احناف بھی میدان میں اترے۔اہل حدیث علماء میں سے مولانا سعید بنارسی اور دیگر جید علماء موجود تھے، لیکن مناظر ہ کےلیے مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی تھے جو پانچ روز احناف کے معروف علماء کا مقابلہ کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورے بنگال میں مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کے علم و فضل اور فن مناظرہ میں مہارت کی دھوم مچ گئی۔مناظرے میں مولانا ممدوح نے آیت کریمہ (فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ) کی ایسی تفسیر بیان فرمائی جس سے اہل علم نہایت متاثر ہوئے۔ خود حضرت میاں سید نذیر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر بے حد مسرت کا اظہار فرمایا۔[2] |