پیسا بھی نہیں مانگا۔ اس کے متعلق ایک عجیب واقعہ سنیے جو مولانا فضل الرحمٰن سلفی نے ایک بزرگ حافظ محمد سلیمان کنگئی والے کے حوالے سے بیان کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مولوی عبداللہ صاحب صبح سویرے رحیم آباد آئے اور مولانا سے کہا کہ آج مقدمہ کی تاریخ ہے اور خرچ نہیں ہے۔مولانا نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: اب بتا رہے ہو، پہلے کیوں نہیں بتایا۔ پھر ایک شخص بابوعبداللہ کو حکم دیا کہ ان کو ناشتہ کراؤ۔جب بابو عبداللہ ان کو ناشتہ کرا چکے تو قلمدان منگوایا اور اسے کھول کر اس میں ہاتھ ڈالا اور نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر مولوی عبداللہ صاحب کو دی بابو عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ ان دنوں مولانا کے پاس پیسے نہیں ہیں اور قلم دان خالی ہے۔[1]لیکن نوٹوں کی یہ گڈی کہاں سے آئی؟یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ اسی طرح کا ایک معاملہ اسی نواح کے ایک بڑے زمیندارہندو چوہدری نانپور کے سلسلے میں پیش آیا، جس کی اس وقت زمین کی سالانہ آمدنی سوالاکھ کے قریب تھی۔اس کے علاقے میں مسلمان بڑی تعداد میں آباد تھے اور وہ ان پر بہت ظلم ڈھاتا تھا۔ مسلمان اس کے خلاف مقدمہ لے کر عدالت میں گئے۔ایک سال مقدمہ چلتا رہا۔ایک دولت منداور علاقے کے باثر ہندو سےمقابلہ تھا، مالی لحاظ سے مسلمانوں کے لیے یہ پریشان کن صورت حال تھی۔ تنگ آکر مسلمان مقدمہ واپس لینے پر غور کرنے لگے۔ اتفاق سے یہ واقعہ حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کے علم میں آ یا تو انھوں نے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی اور ہندو ظالم سرمایہ دارکے مقابلے میں خود میدان میں اترے اور آخری عدالت تک مقدمہ لڑا، جس میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی۔اس مقدمے پر مولانا کے پچاس ہزار سے زائد روپے خرچ ہوئے۔[2] آریہ سماجیوں سے مناظرہ حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی وسیع العلم وسیع المطالعہ اور حاضر جواب عالم تھے۔وہ نہ صرف اسلامی علوم پر عبور رکھتے تھے بلکہ ہندوؤں اور عیسائیوں کے عقائد و افکار سے بھی خوب آگاہ تھے اور وہ لوگ اسلام پر جس طرح کے اعتراضات کرتے تھے، اس کا انہیں علم تھا۔ چنانچہ انھوں نے آریہ سماجیوں سے بعض مسائل میں مناظرے بھی کیے۔ ان کا ایک مناظرہ آج سے ایک سو پانچ سال قبل 16۔اگست1903ءکو موضع”دیوریہ“میں ہوا۔ یہ تحریری مناظرہ تھا۔ مناظرے کی مطبوعہ روداد سے |