Maktaba Wahhabi

155 - 665
اور معاملہ ختم ہو گیا۔مسجد اپنی جگہ قائم رہی۔موجودہ قلعے کی کج چار دیواری آج بھی مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کے اس عظیم کار نامے کی شہادت دے رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن سلفی تحریر فرماتے ہیں: ”حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کے تعلقات اطراف دربھنگا سے توضرور تھے لیکن شہر دربھنگا میں ان کا کوئی اثر نہ تھا۔ یہی مسجد دربھنگا والوں سے ان کے تعلقات بڑھانے کا باعث ہوئی جو آگے چل کر ایک مرکز کی حیثیت اختیار کر گئی۔“[1] ہندو مسلم فسادات متحدہ ہندوستان میں بعض اوقات چھوٹے یا بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ بھی چل پڑتا تھا۔ عام طور سے اس کا سبب گائے کی قربانی ہوتا تھا۔سیتا مڑھی کے علاقے میں ایک بستی کو حسن پوربرہروا کہا جاتا ہے۔وہاں گائے کی قربانی کی وجہ سے ہندوؤں نے بہت بڑی تعداد میں جمع ہو کر اس وقت مسلمانوں پر حملہ کردیا جب کہ وہ نماز جمعہ پڑھ رہے تھے۔ مسلمان اس حملے سے بالکل بے خبر تھے اور خالی ہاتھ تھے۔ لیکن ہندو چونکہ ایک منصوبے کے تحت حملہ آور ہوئے تھے، اس لیے ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس تھے۔ مسجد آبادی سے کچھ فاصلے پر تھی اور مسلمان مسجد میں محصور تھے، ان کے لیے مسجد سے باہر نکلنا مشکل تھا۔ لیکن اللہ کی قدرت ملاحظہ ہو کہ دبلا پتلا اور بظاہر کمزور جسم کا مسلمان ہاتھ میں ایک معمولی سی چھڑی لے کر مسجد سے باہر نکلا اور ایک پہلوان قسم کے حملہ آور کی طرف اس تیزی سے بڑھا کہ اس کی تلوار اس کے ہاتھ سے چھین لی اور چند لمحوں میں اس تلوار سے تین ہٹے کٹے حملہ آوروں کو قتل کردیا۔ یہ منظر دیکھ کر حملہ آور بھاگ گئے اور محصور مسلمان مسجد سے باہر آگئے۔ تھوڑی دیر بعد پولیس آئی اور متعدد مسلمانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر سیشن کورٹ میں مقدمہ چلا۔ پھر اپیل کلکتہ ہائی کورٹ میں گئی۔ کئی سال کیس چلتا رہا، بالآخر جون 1914؁ءمیں فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوگیا۔شروع سے لے کر آخر تک اس انتہائی سستے زمانے میں اس مقدمے میں اسی(80)ہزار روپے خرچ ہوئے۔یہ تمام روپے حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی نے اپنی گرہ سے خرچ کیے۔ اس مقدمے کی پیروی ایک شخص مولوی عبداللہ (سیتا مڑھی)کرتے تھے لیکن اخراجات کی تمام تر ذمہ داری حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی پر تھی۔ مولانا ممدوح نے اس مقدمے کے سلسلے میں کبھی کسی سے ایک
Flag Counter