اور فروری1902ءمیں فیصلہ اہل حدیث کے حق میں ہوا۔اس مسجد کے حصول کے لیے خود مولانا عبدالعزیز میدان میں اترے اور کامیاب ہوئے۔ 1909ء میں جمال پور میں اہل حدیث اور احناف کے درمیان جھگڑا ہوا اور یہ جھگڑا یہاں تک پہنچا کہ احناف نے اہل حدیث نمازیوں کو مسجد سے نکال دیا۔ اس سلسلے میں بھی مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی آگے بڑھے اور ان کی کوشش سے مسجد اہل حدیث جماعت کے قبضے میں آئی۔ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کے سوانح نگارمولانا فضل الرحمٰن سلفی کہ زبانی مظفر پور کی ریلوے مسجد کا ذکر بھی سنتے جائیے۔ یہ کم و بیش ایک سو سال قبل کا واقعہ ہے۔ جب ریلوے حکام نے مظفر پور اسٹیشن کووسیع کرنے کا منصوبہ بنایا تو دیکھا کہ وہاں قدیم دور کی ایک مسجد ہے جو ان کے طے شدہ منصوبے کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ ریلوے کے انگریز حکام نے مسلمانوں سے رابطہ پیدا کیا اور اس مسجد کو منہدم کر کے اس کے بدلے میں اس سے زیادہ جگہ دینے اور اس کو اپنے خرچ سے تعمیر کرنے کا وعدہ کیا، لیکن مسلمان رضا مند نہ ہوئے۔ محکمہ ریلوے کا جنرل منیجر خود مظفرپور آیا اورمسلمانوں سے بات کی۔ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کو پتا چلا تو وہ بھی مظفر پور پہنچے اور جنرل منیجر سے گفتگو کی اور اس کو دلائل سے سمجھایا کہ مسجد جہاں تعمیر ہو جائے، وہ ہمیشہ مسجد ہی رہے گی اسے منہدم نہیں کیا جا سکتا، نہ اس کا کسی دوسری جگہ تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسجد اب بھی وہاں موجود ہے چنانچہ مولانا فضل الرحمٰن سلفی لکھتے ہیں: ”مظفر پور ریلوے اسٹیشن پر جہاں ریلوے لائن کا جال بچھا ہوا ہے، آج بھی ایک گنبد دار مسجد چاروں طرف سے لائن سے گھری ہوئی نظر آتی ہے، جہاں پنجگانہ نماز کے علاوہ جمعہ کی نماز بھی ادا کی جاتی ہے۔“[1] یہاں ایک اور مسجد کا ذکر بھی ضروری ہے جو دربھنگا شہر میں ہے اور جسے ”جھگڑوا مسجد“کہا جاتا ہے۔ یہ بھی تقریباً سو سال پیشترکا واقعہ ہے۔مہارا جادربھنگا نے شہر کے وسط میں اپنا محل بنانا چاہا تو اس کی حد بندی کرتے وقت دیکھا کہ ایک کونے میں پہلے سے مسجد تعمیر کی گئی ہے، جس کی وجہ سے محل کی چار دیواری میں ٹیڑھ آرہی ہے۔ دیوار سیدھی رکھنے کے لیے مسجد کا انہدام ضروری تھا۔اس کے لیے وہاں کے مسلمانوں سے بات کی گئی اور انھیں مسجد کی جگہ سے زیادہ جگہ دینے کی پیشکش کی گئی۔ مہاراجا کا اصرار بڑھا تو دربھنگا کے بعض سرکردہ افراد مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہاں کہ وہ وہاں جا کر مہاراجا سے بات کریں۔ مولانا تشریف لائے، مہاراجا سے بات کی |