الرحمٰن سلفی نے اپنی کتاب”مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی۔ حیات و خدمات“میں بیان کی ہے اور ان کے بعض واقعات بھی تحریر فرمائے ہیں۔ رحیم آباد میں واپسی مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی نے مظفر پور شہر اور اس کے قرب و جوار میں بے حد خدمات سرانجام دیں۔ دس سال کے بعد حالات نے پھر پلٹا کھایا اور والد مکرم کے حکم سے اپنے وطن رحیم آباد واپس آگئے۔یہاں بھی وہی درس و تدریس اور تبلیغ و خطابت کا سلسلہ جاری فرمایا۔ اب رحیم آباد کو علم و علماء کے مرکز کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔کوئی عالم دین آرہے ہیں کوئی جارہے ہیں۔اور وعظ و تبلیغ کے سلسلے جاری ہیں۔حضرت میاں سید نذیر حسین کے لیے تو رحیم آباد کو اپنے گھر کی حیثیت حاصل تھی۔ وہ متعدد مرتبہ یہاں تشریف لائے اور کئی دن مقیم رہے۔ ان کے علاوہ استاذ الاساتذہ حضرت حافظ عبد اللہ غازی پوری، شاہ عین الحق پھلواروی، مولانا ابو احمد ابراہیم آروی اور دیگر بہت سے حضرات یہاں اکثر تشریف لاتے اور لوگوں کو اپنے مواعظ حسنہ سے مستفیض فرماتے رہے۔ان اکابر علماء کی اس نواح میں آمد باعث برکت اور ذریعہ تبلیغ توحیدتھی۔اس کے وسیع اثرات اب بھی اس علاقے میں موجود ہیں۔ مساجد متعلق جھگڑے اور فیصلے برصغیر میں مساجد کے متعلق تھوڑا بہت جھگڑا ہمیشہ چلا رہا۔ کبھی ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں اور کبھی احناف اور اہل حدیث کا۔ بارہا ایسا ہوا کہ غیر مسلمانوں سے کہا کہ یہ جگہ مندریا گوردوارے کی ہے یہاں ہم مسجد نہیں تعمیر ہونے دیں گے یا احناف نے اہل حدیث سے جھگڑا شروع کردیا کہ یہ جگہ ہماری ہے۔ یہاں اہل حدیث کی مسجد نہیں بن سکتی۔ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کے زمانے میں بھی اس قسم کے جھگڑوں نے سراٹھایا۔مثلاً تاج پور کی مسجد کے بارے میں شدید اختلاف پیدا ہوا۔ وہاں احناف کی اکثریت تھی اور انھوں نے اس مسجد میں اہل حدیث جماعت کے لوگوں کو نماز پڑھنےاور پڑھانے سے روکنے کی کوشش کی۔لیکن مولانا عبدالعزیز کے والد شیخ احمد اللہ صاحب نے سختی سے مقابلہ کیا۔ معاملہ عدالت تک پہنچا اور مسجد اہل حدیث کے قبضے میں آ ئی اسی طرح سیتا مڑھی شہر کے کورٹ بازار کی مسجد کے امام ایک بزرگ حافظ نصر اللہ نابینا تھے جو بہت ذہین عالم دین اور متقی شخص تھے۔ انھوں نے مسلک اہل حدیث اختیار کیا تو احناف کی طرف سے انھیں بے حد اذیتیں پہنچائی گئیں اور انھیں مسجد سے نکال دیا گیا۔یہ معاملہ بھی عدالت میں گیا |