Maktaba Wahhabi

152 - 665
ایک بااثر شخصیت تھے۔ وہ بزرگ مولانا رحیم آبادی کے طرز گفتگو اور انداز تقریر وتدریس سےبہت متاثر ہوئے اور جلدہی یہ تاثر مولانا سے عقیدت کی صورت اختیارکرگیا۔اسی اثناء میں ان کے ایک بھتیجے محمود عالم مولانا کے حلقہ درس میں شامل ہوگئے جوآگےچل کر اس علاقے کےعالم دین کی حیثیت سےابھرے اور مبلغ اور مدرس کےطورپرخدمات سرانجام دینے لگے۔ مولانا رحیم آبادی کامظفر پور آنا اللہ تعالیٰ کی رحمت ثابت ہوا۔چونکہ یہ ضلع کاصدر مقام تھا، اس لیے اس شہرمیں مختلف مقامات سےبےشمارلوگ آتےاورمولاناسےملتے تھے۔مولانا نے آتے ہی یہاں مدرسہ جاری کرلیا تھا، ان کی تدریسی سرگرمیوں سے بہت سےشائقین علم پہلے سے آگاہ تھے۔اب شہر میں تشریف لانےکی بناءپر ان کی شہرت میں مذید اضافہ ہوا اور وہ مرجع عوام قرارپاگئے۔طلباء حصولِ علم کے لیے آنےلگے اورعام لوگوں کوان کےوعظ وخطابت نے اپنی طرف کھینچنا شروع کیا۔مسائل پوچھنے اورفتوے لینےکے لیے بھی روزانہ بہت سے لوگ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔اس طرح پورے علاقے میں ان کے علم وتحقیق کے اثرات پھیل گئے۔اس زمانے میں جن حضرات نے ان سے فیض حاصل کیااوران کےحلقہ شاگردی میں شامل ہوئے، ان سب کا تذکرہ تو شاید کوئی بھی نہ کرسکے، البتہ اس علاقے کے جن بزرگوں کے نام ا ن کے شاگردوں کی فہرست میں لیے جاتے ہیں، ان میں مولاناابوطاہر بہاری، مولانا مولابخش براکری، مولانا محمد اسحاق آروی، حافظ محمدحنیف آروی، حافظ عبداللہ رحیم آبادی، حافظ عبداللہ لانگری شامل ہیں۔ مظفر پورمیں قیام کی وجہ سےان کاحلقہ احباب بھی وسیع ہوا، ان کی دعوت وتبلیغ کےدائرے نے بھی وسعت اختیار کرلی اورعمل بالحدیث کی تحریک بھی دوردرازعلاقوں تک پہنچی۔مولانا ممدوح ضلع مظفر پور کے مختلف دیہات وقصبات میں تشریف لے جاتے اور اپنے مواعظ میں لوگوں کو کتاب وسنت پر عمل کی دعوت دیتے، جس سے سامعین نہایت متاثر ہوتے اور ان کے ارشادات کو لائق عمل قراردیتے۔ مولانارحیم آبادی دس سال مظفر پور میں قیام فرمارہے۔مظفر آباد میں ان کی قائم کردہ درسگاہ نے آگے چل کر مدرسہ احمدیہ کے نام سے شہرت پائی اور نصف صدی سےزائد عرصے تک تشنگانِ علم اس چشمہ صافی سے اپنی علمی پیاس بجھاتے رہے۔ مظفر پور میں قیام کےدوران جہاں بہت سے مسلمانوں نے مولانا رحیم آبادی کے مواعظ سے اثر پذیر ہوکربدعات ومحدثات کو ترک کیا اورمسلک اہلحدیث سے وابستگی اختیار کی وہاں بعض غیر مسلم بھی حلقہ اسلام میں داخل ہوئے اور اپنے علاقے میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کا سبب بنیں۔اسلام قبول کرنے والوں میں بعض اونچی ذات کے ہندو بھی شامل تھے۔جس کی تفصیل مولانا محمد فضل
Flag Counter