کے ذہن وفکر کی تہوں میں جاگزیں ہوا۔ مولانا رحیم آبادی کا تذکرہ کرتے ہوئے حکیم عبدالحئی حسنی لکھتے ہیں: (الشيخ الفاضل عبد العزيز بن أحمد اللّٰه السلفي الرحيم آبادي المظفر پوري احد العلماء المشهورين ولد سنة سبعين وماتين والف بقرية رحيم آباد من اعمال مظفر پور، وقراالعلم علي المولوي محمود عالم الرام پوري والحكيم عبدالسلام الدهلوي ثم العظيم آبادي ومولانا محمد يحيٰ بن منور حسن الهرني العظيم آبادي ثم سافر الي دهلي واخذ الفقه والحديث عن شيخنا المحدث نذير حسين الحسيني الدِّهْلَوي سنة الثنتين وتسعين وماتين والف۔ثم رجع الي بلدته وجد في البحث والاشتغال حتي حصلت له ملكة راسخة في الخلاف والمذهب)[1] ” یعنی شیخ فاضل عبدالعزیز بن احمد اللہ سلفی رحیم آبادی کا شمار علمائے مشاہیر میں ہوتا تھا۔وہ 1270ھ کو رحیم آباد(اعمال مظفر پور) میں پیدا ہوئے اورمولانا محمود عالم رام پوری، حکیم عبدالسلام دہلوی ثم عظیم آبادی اورمولانا محمد یحیٰ بن منور حسن ہرنی عظیم آبادی سے حصول علم کیا۔پھر عازم دہلی ہوئے اور وہاں 1292ھ میں ہمارے شیخ محدث نذیرحسین حسینی دہلوی سے حدیث وفقہ کے علوم کی تحصیل کی۔بعد ازاں اپنے وطن تشریف لائے اور تدریس وتبلیغ میں مصروف ہوئے، یہاں تک کہ انھیں مناظرات وخلافیات اور مذہبی علوم ومباحث میں ملکہ راسخہ حاصل ہوگیا۔[2] مظفر پور آٹھ سال کے بعد تبدیلی کی لہر چلی اورحالات میں کچھ ایسا تغیر رونما ہوا کہ اس کے نتیجے میں عبدالعزیز اپنے مولد ومسکن رحیم آباد کی سکونت ترک کرکے اہل وعیال سمیت مظفر پور چلے گئے جو اس علاقے کا ضلعی مقام تھا۔مظفر پور کے محلہ چھوٹی کلیانی کی ایک مسجد کوانھوں نے اپنا مرکز قراردیا اور وہاں ایک درس گاہ کی بنیاد رکھی۔وہاں کے ایک بزرگ کا نام”دون خان“ تھا جو شہر کی |