Maktaba Wahhabi

150 - 665
چنانچہ وہ ایک ماہر طباخ بھی تھے اور ہرقسم کے کھانے پاسکتےتھے اور بوقت ضرورت پکاتے بھی تھے اس وقت مغل حکومت کے اختتام پر تھوڑاعرصہ ہی گزرا تھا اور دہلی میں مغل حکمرانوں اور حاکموں کے بعض طباخ موجود تھے جو مختلف قسم کےشاہی کھانے پکاتے رہے تھے، مولانا نے ان سے رابطہ قائم کرکے اس فن سے آگاہی حاصل کی۔ اسی اثناءمیں انھوں نے گھڑ سواری میں مہارت پیداکی۔ دہلی کو ہندوستان کے دارالحکومت کی حیثیت حاصل تھی، فوج کا مرکز بھی وہی شہرتھا اور بہتر سے بہتر گھڑ سوار کثیر تعداد میں وہاں موجود تھے، مولانا نے یہ فن بھی دہلی کے ماہر گھڑ سواروں سے سیکھا۔ چنانچہ وہ سرکش سے سرکش گھوڑے کو رام کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔وہ دراصل ابتدا ہی سے مجاہدانہ طبیعت کے مالک تھے اور جماعت مجاہدین سے متاثر ومتعلق تھے، اسی تعلق وتاثر کی بنا پر وہ گھڑ سواری وغیرہ امور میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ مسند تدریس جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا۔مولانا رحیم آبادی 1293ھ(1875ء) میں فارغ التحصیل ہوئے تھے۔اسی سال وہ اپنے وطن رحیم آباد آئے اور آتے ہی مسند تدریس آراستہ کی اور اس اہم کام میں مشغول ہوگئے۔اس وقت وہ تئیس برس کے جوان رعنا تھے۔محنت، مستعدی، احساس ِ ذمہ داری، جذبہ خدمت دین، صالحیت اور صلاحیت یہ چھ عناصر تھے جن کو ان کی حیات مبارکہ کے لازمی عناصر کی حیثیت حاصل تھی۔یہ عناصر نعم الرفیق کے طور پر تمام عمران کے ساتھ رہے۔ رحیم آباد کے جس مدرسے میں وہ فریضہ تدریس سرانجام دیتے تھے، وہ مدرسہ عرصہ پیشتر ان کےوالد ماجد شیخ احمد اللہ نے جاری کیا تھا۔اس مدرسے میں مقامی طلباء کے علاوہ متعدد بیرونی طلباء بھی تحصیل علم کرتے تھے۔ جن کی تمام ضروریات کی کفالت شیخ احمداللہ نے اپنے ذمے لے رکھی تھیں۔یعنی ان کے قیام وطعام اور درسی کتابوں پر جو کچھ خرچ ہوتا تھا، وہ شیخ صاحب اپنی گرہ سے ادا کرتے تھے۔ تدریس کے ساتھ خطابت وامامت کا فریضہ بھی مولانا عبدالعزیز اپنے قصبے رحیم آباد میں ادا فرماتے تھے۔نیز اس علاقے کے مختلف مقامات میں وعظ وتبلیغ کے لیے بھی مولانا جاتے تھے، جس سے بے شمار لوگوں کو فائدہ پہنچا اور کتاب وسنت کی اشاعت کا دائرہ وسیع ہوا؛ آٹھ سال رحیم آباد میں مولانا کی تدریس وخطابت کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہا۔اس اثنا میں لوگ کثیرتعداد میں بدعات اور غلط رسوم وعقائد سے تائب ہوئے اور اللہ کی وحدانیت اور کتاب وسنت پر عمل کا داعیہ ان
Flag Counter