اس کے علاوہ موطا امام مالک، سنن دارمی، جامع صغیر، ہدایہ، جلالین اور اصول حدیث کی کتابیں پڑھیں۔منطق، فلسفہ، معانی، صرف ونحو اوردیگر علوم کی کتابیں بھی مختلف اساتذہ سے پڑھیں۔بائیس سال کی عمر میں تمام مروجہ علوم کی کتابیں پڑھ لی تھیں۔اور 1293ھ(1875ء) میں حضرت میاں صاحب سے سند فراغت لی۔ مولانارحیم آبادی نہایت ذہین اور قوی حافظہ تھے۔علوم متد اولہ پر انھوں نےزمانہ طالب علمی ہی میں عبورحاصل کرلیا تھا۔بعض اوقات درس میں شریک ہی نہیں ہوتے تھے کہ جو کچھ آج پڑھنا ہے اس کا مجھے خوب علم ہے۔چنانچہ ایک دن میاں صاحب طلباءکوپڑھا رہے تھے، دیکھا کہ عبدالعزیز سبق میں حاضر نہیں ہیں۔میاں صاحب نے بلاکر غیر حاضری کی وجہ پوچھی تو بولے یہ سبق مجھے آتا تھا، اس لیے حاضر نہیں ہوا۔میاں صاحب”اچھا“ کہہ کر خاموش ہوگئے۔ ایک دن پھر دیکھا کہ وہ طلباء کی جماعت سےغیرحاضر ہیں۔میاں صاحب نےبلاکرپھر غیر حاضری کی وجہ پوچھی تو اس قسم کا جواب دیا جوپہلےدیاتھا۔اب میاں صاحب نےکوئی ایسی بات پوچھی، جس کا اس سبق سے تعلق تھا، اس کاصحیح جواب نہ تو دےسکے، لیکن طبیعت چونکہ مناظرانہ پائی تھی لہذاخاموش نہ رہ سکے اور ادھراُدھرکی غیرمتعلق باتیں کرنے لگے۔میاں صاحب نےفرمایاکہ زیر درس کتاب کےبعض مباحث میں بعض نئی بحثیں بھی ہوتی ہیں، اس لیے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ میں ہردرسی کتاب کے ہرمسئلےپر عبوررکھتاہوں۔پھر فارسی کایہ شعر پڑھا ہربیشہ گماں مبر کہ خالیست شاید کہ پلنگ خفتہ باشد (ہرجنگل کو خالی نہ سمجھو، ممکن ہے کہیں شیر سورہاہو) علم طب کی تحصیل قیام دہلی کےدوران میں مولاناعبدالعزیز رحیم آبادی نےدہلی کے بعض ناموراطباءسےعلم طب کی تحصیل کی۔ اس زمانے میں دینیات کی تعلیم کے بعد یا اس کےدوران ہی میں عام طور سے علمائےکرام علم طب کےحصول کی کوشش بھی کرتےتھے۔اس سے ان کا مقصود یہ ہوتا تھا کہ تحصیل علم کےبعدکسی کے احسان مندنہ ہوں۔تدریسی اور تبلیغی خدمات بغیر کسی معاوضے کےاداکی جائیں اور ذریعہ معاش طبابت کوبنایاجائے۔لیکن مولانا رحیم آبادی توزمیندار اور مالدارگھرانے کےفردتھے، علم طب سےان کا مقصد محض خدمت خلق تھا۔چنانچہ انھوں نے کوئی باقاعدہ مطب قائم نہیں کیا البتہ مریضوں کوضروری مشورے ضرور دیتےرہے۔ قیام دہلی کے زمانے میں انھوں نےماہر طباخوں اور باورچیوں سےطباخی کاطریقہ بھی سیکھا، |