Maktaba Wahhabi

148 - 665
تھے۔ان کی اولاد میں سے بعض ہندوستان میں قیام پذیر ہیں اور بعض پاکستان آگئے تھے۔دینی اور دنیوی اعتبار سے یہ سب لوگ آسودگی کی زندگی بسرکرتے ہیں۔ مولانا رحیم آباد کی ولادت شیخ احمداللہ کے مختصر حالات اور ان کے چار لڑکوں(عبدالرحیم، عبدالوہاب، محمد یاسین اور محمد یحییٰ) کےتعارف کے بعد اب مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کے واقعات زندگی بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مولانا ممدوح قمری حساب سے 1270ھ میں پیدا ہوئے جو عیسوی حساب سے 1854ء بنتاہے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ان کی ولادت مغل دور کے آخری حکمران بہادر شاہ ظفر کے آخری عہد حکومت میں ہوئی۔بہادرشاہ اگرچہ براے نام بادشاہ تھا اور اس کا دائرہ حکمرانی سمٹ کر قلعہ معلیٰ کی چاردیواری میں محدود ہوگیاتھا، تاہم اسے بادشاہ ہی کہاجاتاتھا اور یہ قلعہ معلیٰ میں تخت حکمرانی پر متمکن تھا اور کسی بھی صورت میں سہی، آخر یہ مسلمانوں کی بادشاہت تھی۔یعنی مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی نے اپنے بچپن کے چار سال مغلوں کی مسلمان حکومت میں گزارے۔اس کے بعد 1857ءآگیا اورپھر اسی سال ہندوستان سے مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور مولاناممدوح ہندوستان کے کروڑوں باشندوں کے ساتھ انگریزوں کی ماتحتی میں چلے گئے۔ مولانا کی والدہ کا نام بی بی مخدومن تھا اور وہ میر معشوق علی کی بیٹی تھیں جو چک جہاں کرادفہ (عرف گدولور) کےرہنے والے تھے۔ تعلیم وتربیت کچھ بڑے ہوئے توتعلیم وتربیت کا سلسلہ شروع ہوا۔والد مکرم نے بیٹے کوپہلے حفظ قرآن کی راہ پر لگایا۔اس کے لیے گھر ہی میں انتظام کیا اور حافظ مٹھو دربھنگوی کی خدمات حاصل کیں، پھر حافظ محمد رمضان(ساکن باندہ) کے حلقہ شاگردی میں دے دئیے گئے۔قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد عربی اور فارسی کی تعلیم کوضروری سمجھاگیا۔متداول نصاب کی ابتدائی اور متوسط درجوں کی کتابیں مولوی عظمت اللہ، مولوی محمود عالم رامپوری اور مولوی محمد یحییٰ عظیم آبادی سے گھر ہی میں پڑھیں۔ حضرت میاں صاحب کی خدمات میں اس کے بعد دینیات کی اعلیٰ تعلیم کے لیے 1290؁ہجری(1873ء) میں انھیں حضرت میاں سید نذیرحسین کی خدمت میں دہلی بھیج دیا گیا۔وہاں دو سال قیام رہا۔اس اثناء میں صحاح ستہ کی تکمیل کی۔
Flag Counter