اولاد اور ان کی تعلیم وتربیت شیخ احمداللہ کی اولاد نرینہ پانچ بیٹے تھے اور وہ تھے عبدالرحیم، عبدالوہاب، عبدالعزیز، محمد یاسین اورمحمد یحییٰ۔ان کی تعلیم وتربیت کا انھوں نے رحیم آباد میں مدرسہ جاری کرکے وہیں انتظام کیا اور اس کے لیے وقت کے معروف اساتذہ کی خدمات حاصل کیں۔ان اساتذہ میں حافظ مٹھو دربھنگوی، حافظ محمد رمضان(ساکن باندہ) مولاناعظمت اللہ(ساکن بہپورہ) مولانا محمود عالم رامپوری اورمولانا محمدیحییٰ بہاری کےاسمائے گرامی شامل ہیں۔ بڑے بیٹے عبدالرحیم نے اسی مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دہلی کا رخ کیا اوروہاں کے بعض اساتذہ سے مستفید ہوئے۔آخر میں حضرت میاں سید نذیرحسین کے حلقہ درس میں شمولیت کی اور ان سے حدیث کی کتابیں پڑھیں۔دہلی میں علم طب بھی پڑھا۔فراغت کے بعد واپس اپنے وطن رحیم آباد آئے اور اپنے والد محترم شیخ احمداللہ کے جاری کردہ مدرسے میں خدمت تدریس میں مصروف ہوگئے۔مدرسے کے اساتذہ وطلبا کے اخراجات کے ذمہ دار شیخ احمداللہ صاحب تھے۔مولانا عبدالرحیم اپنے مدرسے میں پڑھاتے بھی تھے، لوگوں کا مفت علاج بھی کرتے تھے اور زمینوں کا انتظام بھی ان کے سپرد تھا۔وہ عالمانہ شان سے رہتے تھے۔1938ءمیں 94 سال کی عمر پاکر فوت ہوئے۔ان کے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کاسلسلہ ماشاء اللہ بہت وسیع ہے۔ دوسرے بیٹے عبدالوہاب تھے۔ان کی تعلیم بھی اسی گھر کے مدرسے میں ہوئی۔دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد انھوں نے وکالت پڑھی اور پھر وکالت ہی کواپنا پیشہ بنالیا، تمام عمر وکالت کرتے رہے۔اللہ کے فضل سے ان کی اولاد بہت پھیلی اور وہ سب لوگ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اچھے عہدوں پر فائز ہوئے۔ان میں سے بعض حضرات پاکستان آگئے تھے لیکن زیادہ ترہندوستان میں رہے۔دونوں ملکوں کے رہنے والے خوش حالی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ شیخ احمد اللہ کے تیسرے بیٹے مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی تھے، جن کے حالات آئندہ صفحات میں بیان کیے جارہے ہیں۔ چوتھے حافظ محمد یاسین تھے۔انھوں نےگھرمیں قرآن مجید حفظ کیا اورعربی وفارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔پھر حضرت میاں صاحب کے حلقہ درس میں شامل ہونے کے لیے دہلی کو روانہ ہوئے۔کہا جاتا ہے کہ شیخ احمداللہ صاحب کے سب لڑکوں سے یہ زیادہ ذہین تھے۔لیکن چھوٹی عمر میں وفات پاگئے۔ پانچویں لڑکے محمد یحییٰ تھے۔انھوں نے بھی دینی تعلیم حاصل کی۔بارعب شخصیت کے مالک |