6بجے ان کا انتقال ہو گیا۔انھوں نے صرف 56برس عمر پائی۔ نظم و نثر میں بہت سے اصحاب علم نے ان کی موت پر اظہار حزن و ملال کیا۔مولانا ابو القاسم بنارسی نے ان کی وفات پر بالکل صحیح کہا کہ ”جس وقت دنیا کا آفتاب طلوع ہوا۔اسی وقت دین کا آفتاب (شمس الحق) غروب ہوا۔“ (اللّٰه مَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ) اولاد مولانا عظیم آبادی کی اولاد چھ لڑکیاں اور تین لڑکے تھے۔ لڑکوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: 1۔۔۔محمد شعیب : یہ بچہ پانچ ماہ کی عمر میں 17۔رجب 1229ھ(26۔جولائی1880)کو انتقال کر گیا تھا۔ 2۔۔۔حکیم محمد ادریس :یہ 16رجب 1298ھ(14۔جون1881ء)کو پیدا ہوئے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد علم طب پڑھا اور اپنے علاقے کے ایک بڑے طبیب کی حیثیت سے شہرت پائی۔ان کی ایک کتاب کا پتاچلتا ہے، جس کا نام”اعدل الاقوال فی بیان النظلم علی العباد“ہے۔ اخبار ”اہل حدیث“(امرتسر) میں ان کے بعض مضامین بھی شائع ہوئے۔والد عالی مقام کی وفات کے بعد جامع ازہر کے نام سےڈیانواں میں ایک مدرسہ جاری کیا تھا۔ آزادی برصغیر کے بعد حکیم صاحب ممدوح ڈھاکہ چلے گئے تھے، جسے اس زمانے میں مشرقی پاکستان کہا جاتا تھا، وہیں دسمبر 1960ء میں وفات پائی۔ ان کے سات لڑکیاں اور چار لڑکے تھے۔ 3۔۔۔مولانا حافظ عبدالفتاح : انھیں محمد ایوب بھی کہا جاتا تھا۔7۔محرم1305ھ(26ستمبر1887ء) کو پیدا ہوئے۔ قرآن مجید حفظ کیا اور دینیات کی تعلیم حاصل کی۔1312ھ میں حج بیت اللہ کے لیے گئے تو حجاز کے بعض علماء و مشائخ سے استفادہ کیا۔ 1934ءمیں وفات پائی اور تین بیٹے اپنے پیچھے چھوڑے۔ کتب خانہ حوادث کی زد میں گزشتہ صفحات میں یہ فقیر عرض کر چکا ہے کہ حضرت مولانا عظیم آبادی کی وفات کے بعد ان کے کتب خانے کو جو حوادث پیش آئے، اس کا ذکر آئندہ سطور میں کیا جائے گا۔ہم اس حقیقت سےآگاہ ہو چکے ہیں کہ ان کا کتب خانہ مختلف علوم کے نوادر کا احاطہ کیے ہوئے تھااور یہ نوادر انھوں نے انتہائی شوق اور بے حد کوشش سے خطیر رقوم خرچ کر کے جمع کیے تھے۔بڑے بڑے شائقین مطالعہ |