اور امن عطا کرے۔ میرے سارے خدام بیامر اور بعض بعض بخوف دوسری جگہوں میں چلے گئے۔عجیب حالت نازک ہے، اللہ تعالیٰ رحم فرمادے۔ میرے مختار و منشی اور جو لوگ کام دفتر کا کرنے والے ہیں، سب کے سب چپکے سے روانہ ہو گئے۔ یہ قریہ گویا اس وقت خالی ہے۔ ہم اس وقت یہ خط لکھتے ہیں اور طبیعت بالکل حاضر نہیں ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ کوٹھی حاجی علی جان مرحوم کو امین کانفرنس قراردیا۔ اس سے کانفرنس کو ان شاء اللہ تعالیٰ فائدہ معتد بہا پہنچے گا، کیونکہ دیانت اور راست بازی میں یہ کوٹھی ضرب المثل ہے۔کتاب حساب و کتاب کانفرنس اور تحویل اس کی ایک صندوق میں محفوظ ہے، اور منشی جی میری کنجی لے کر کہیں ٹک گئے ہیں۔ جب انتشار کم ہواور منشی جی واپس آویں تب ہم باقی تحویل اور کتاب کانفرنس جو صندوق کے اندر ہے۔ دہلی روانہ کردیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس وقت جس قدر باہر دوسری جگہ رکھی تھی یعنی نو سو(900)روپے، اس کو ہم نے بذریعہ نوٹ کے روانہ کردیا، آدھا اس کا روانہ ہوا ہے اور آدھا اس کے بعد آنے رسید کے روانہ ہوگا۔ آپ اطمینان رکھیں۔ یہ سب کیفیت ہم نے مکرمی مولوی عبدالغفار صاحب کو بھی لکھ دیا ہے۔اللہ اللہ ہر دن دو تین موت ہوتی ہے۔ سارے لوگ جھونپڑی میں بدحواس ہیں۔ اشخاص چند اندر مکان کے بستی میں ہیں۔ یہ قریہ صغیرہ حکم میں قریہ کبیرہ کے ہے۔ چونکہ ساری اشیا(مايحتاج عليها) ہر وقت ملتی ہیں۔ مگر آج کل چونکہ سارے لوگ بھاگے ہوئے ہیں، ایک پیسہ کی چینی بھی نہیں ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمادے۔ زیادہ والسلام مع الشوق 12۔ربیع الاول بروز سہ شنبہ محمد شمس الحق عفی عنہ۔ از ڈیانواں، ضلع پٹنہ وفات اب مولانا عظیم آبادی کی وفات کے متعلق سنیے جو مسلمانان ہند کے لیے بالعموم اور جماعت اہل حدیث کے لیے بالخصوص نہایت المناک حادثہ تھا۔1910ءاور 1911ء میں طاعون کی وبا یوں تو تمام ملک میں پھیلی ہوئی تھی، لیکن صوبہ بہار کا ضلع پٹنہ جو مولانا عظیم آبادی کا وطن تھا، خاص طور سے اس کی لپیٹ میں تھا اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کے نام ان کا خط ہم نے پڑھا۔ یہ خط انھوں نے 12۔ ربیع الاول کو لکھا تھا۔اس سے دوسرے دن 13 ربیع الاول کو خود طاعون کا حملہ ہوا، وہ چھ دن اس موذی مرض میں مبتلا رہے19۔ ربیع الاول 1329ھ(20۔مارچ1911ء) کو بروز سوموار صبح |