دور دراز علاوں سے آتے اور اس عظیم الشان کتب خانے سے استفادہ کرتے تھے۔14اپریل 1906کو ندوۃ العلماء کے اہتمام میں بنارس کے ٹاؤن ہال میں نادر و کامیاب کتابوں کی جو نمائش کی گئی تھی، اس میں مولانا عظیم آبادی کی بہت سی نادر کتابیں آئی تھیں، جن کا ذکر الندوہ(جلد 3، نمبر2)اور مقالات شبلی(جلد 7صفحہ 111) میں مولانا شبلی نے بھی کیا ہے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری نے بھی اخبار”اہل حدیث“مؤرخہ 31۔مارچ 1911ء میں اس کا تذکرہ فرمایا ہے۔اس کتب خانے کے متعلق سیرۃ البخاری کے فاضل مصنف مولانا عبدالسلام مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”علامہ ابو الطیب محمد شمس الحق عظیم آبادی کا کتب خانہ بھی قابل دید ہے۔اس کتب خانے میں علامہ موصوف نے ہرفن کی کار آمد کتابیں فراہم کی ہیں اور وہ شب و روز اسی دھن میں رہتے ہیں۔معقولات، ادب، لغت، تاریخ، سمیت تمام علوم اسلامیہ موجود ہیں۔فن حدیث کے متعلق اس قدر مواد فراہم ہے کہ اکثر نامی کتب خانے اس سے خالی ہیں۔ اکثر نسخ قلمیہ ایسے ایسے نادر موجود ہیں جن سے یورپ کے بڑے بڑے کتب خانے خالی ہیں۔ساتھ اس کے آپ مستفیدین اور اہل علم کا بڑی گرم جوشی سے خیر مقدم کرتے ہیں اور کتابیں عاریۃًدے دیتے ہیں۔ بہت کشادہ دلی سے کام لیتے ہیں۔“[1] حضرت مولانا عبدالسلام مبارک پوری کے ان الفاظ کے آگے ان کے فرزند گرامی قدر شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ رحمانی مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ”افسوس اب اس کتب خانے سے علامہ مرحوم کے خلاف میں سے نہ کوئی خود فائدہ اٹھانے والا ہے۔نہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے والا۔“[2] یہ کتب خانہ بڑے حادثوں کی زد میں آیا۔ پہلا حادثہ1946ء میں پیش آیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب ڈیانواں کے علاقے میں مسلم کش فسادات ہوئے اور بہت سے لوگوں نے ادھر اُدھر سے آکر مولانا عظیم آبادی کے مکان میں پناہ لی۔ لائبریری کے کمروں میں بھی ان کا قیام ہوا۔اس وقت بہت سی کتابیں ضائع ہوگئیں۔بعض پناہ گزینوں نے جو علم سے کوئی تعلق نہ رکھتے تھے ان کتابوں کو کھانا وغیرہ پکانے کے لیے چولہوں میں جلا ڈالا۔ دوسرا حادثہ 1971ء میں پیش آیا، جب مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیش کے قیا م کی تحریک نے سر |