ایک مکتوب مولانا عبدالحق ملتانی (متوفی 1365ھ) کے نام ہے۔ یہ مکتوب اخبار”الاعتصام“مؤرخہ 20۔نومبر1970ءسے نقل کیا گیا ہے۔ ایک خط مولانا ثناء اللہ امرتسری کے نام ہے جو 21۔مارچ 1911ءکے اخبار”اہل حدیث “(امرتسر) سے نقل کیا گیا ہے۔ غالباً مولانا عظیم آبادی کا کسی شخص کے نام یہ آخری خط ہے۔اس سے چند روز بعد مولانا وفات پاگئے۔ ایک خط عربی میں ہے جو فاس (مراکش) کے ایک اہل علم شیخ عبدالحفیظ بن محمد طاہر کے نام ہے۔ اس میں مولانا عظیم آبادی کا ایک عربی قصیدہ بھی شامل ہے۔یہ خط 26۔ جمادی الاولیٰ 1327ھ(15۔جون 1909ء)کا مرقومہ ہے۔ یہ فقیر یہاں مولانا عظیم آبادی کے دو مکتوب درج کرنا چاہتا ہے۔ایک مکتوب سید عبدالحئی حسنی کے نام جو انھوں نے16۔ربیع الثانی1327 ھ (7۔مئی 1909ء)کو ارسال فرمایا۔ اس مکتوب سے پتا چلے گا کہ مولانا عظیم آبادی اہل علم سے کس قدر منکسر انہ انداز میں مخاطب ہوتے ہیں اور ان کا کتنا احترام کرتے ہیں۔ پھر اس سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ وہ اہل علم کی کتنی مدد فرماتے ہیں۔ اس خط میں فاضل مرتب (محمد عزیر صاحب) کی توضیحات شامل نہیں ہے۔ دوسرا خط وہ درج کرنا چاہتا ہوں جو انھوں نے مولانا ثناءاللہ امرتسری مرحوم کے نام تحریر فرمایا۔۔۔پہلے ذیل میں سید عبدالحئی حسنی کے نام خط کا مطالعہ فرمائیے۔ بگرامی خدمت ذی درجت مخدومی جامع الفضائل السید السند عبدالحئی حسنی دامت برکاتہم۔ بعد سلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاۃ ورضوانہ واضح سامی شریف باد۔ محبت نامہ آپ کا پاکر ممنون ومشکور ہوئے۔ جزاکم اللہ تعالیٰ خیرا۔ (للّٰه الحمــدُ والمنـّـة) کہ آپ نے تذکرہ علمائے ہند لکھنا شروع کیا ہے، اللہ تعالیٰ اس کوانجام کو پہنچادے۔[1] ہم کو جس قدر تذکرہ علمائے کا شوق تھا، وہ ہے اس کو بیان نہیں کر سکتے ہیں۔ جس زمانے میں مولوی عبدالحئی حسنی صاحب مرحوم لکھنوی نے”ابناء الخلان“لکھنا شروع کیا تھا اسی زمانے میں ہم نے بھی لکھنا شروع کیا تھا، مگر میری تاریخ ہنوز ناتمام ہی نہیں بلکہ اجزا اس کے متفرق وغائب ہوگئے۔اس کی وجہ یہ ہوئی کہ مولوی عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ہم سے تراجم علمائےصوبہ بہار وغیرہ طلب کیا۔ہم نے بعض اجزاان کے پاس روانہ کردیے، مگر باوجود چند بار طلب کرنے کے |