وفات تک ان کی میرے اجزا واپس نہیں آئے، پھر بعد وفات ان کی مولوی خادم حسین صاحب نے بمشکل کچھ اجزاروانہ کیے۔
اس کے بعد ایک مولوی صاحب جو دانا پور میں رہتے ہیں۔[1]انھوں نے ایک تذکرہ علمائے ہند لکھنا شروع کیا، اور پندرہ بیس جزء میں کتاب کو تمام کر کے امرتسر وکیل اخبار کے یہاں طبع کے لیے بھیجا۔ مگر ابھی تک طبع نہیں ہوئی ہے۔
پھر مولوی محمد صاحب شاہ جہان پوری مرحوم و مغفور نے ایک تذکرہ لکھنا شروع کیا اور قریب دو تین سوتراجم کے انھوں نے جمع بھی کیا۔ مگر نوبت اتمام کتاب نہ پہنچی اور انھوں نے وفات کیا۔
اس لیے افسوس کہ میری کتاب پوری کیا ہوگی، اجزا بھی اس کے منتشر وضائع ہوئے۔ اب آپ نے اس کا قصد فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ پورا کرے۔ میرے پاس بعض تراجم بطور مسودہ چٹھہ کے موجود ہیں، ان سب کو ہم جمع کرکے بذریعہ پولندہ روانہ کریں گے۔ آپ ازراہ مہربانی دوایک ماہ میں ان مسودات میں سے جس قدر مضمون مناسب معلوم فرما دیں انتخاب کرلیں اور پھر مسودہ کو ضرور واپس فرما دیں۔[2] اور ہم شاہجہان پورے بھی مسودہ سب واپس طلب کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
صاحب ”دراسات اللبیب“کا ترجمہ بھی ہم نے تاریخ فارسی کشمیر سے نقل کیا ہے۔[3]ان کی تاریخ وفات اس مصرع سے ہے:
”قطرہ دُرببحر واصل شد“
|