پر عمل نہ کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان تصانیف میں سے کوئی کتاب بھی چھپ نہ سکی۔[1] جس طرح حضرت نواب صدیق حسن خاں نے اپنے خرچ سے بہت سی اہم کتابیں شائع کیں، اسی طرح مولانا عظیم آبادی نے بھی یہ خدمت سرانجام دی اور بڑی فراخ حوصلگی سے دی۔ ان کےفرمان کے مطابق تصنیف شدہ کتابیں حضرت مولانا عظیم آبادی کی اپنی تصانیف کا ذکر تو آگے آئے گا، یہاں ان تصانیف کا ذکر کیا جاتا ہے، جو مختلف حضرات نے ان کے فرمان کے مطابق تصنیف کیں۔اس سے مقصد محض کتاب وسنت کی حمایت وتائید اور سلف صالحین کے نطقہ نظر کواجاگر کرتا تھا۔اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں: ٭ ڈاکٹر عمر کریم پٹنوی اورسید عبدالغفور عظیم آبادی نے حدیث رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) ائمہ حدیث اور امام بخاری کے خلاف زبان طعن دراز کی تو مولانا عظیم آبادی نے اپنے لائق شاگرد اور نامور عالم مولانا ابوالقاسم بنارسی کو میدان میں اتارا اور ان کی مالی اورعلمی اعانت کی۔انھوں نے اس موضوع پر جو کتابیں لکھیں، وہ یہ ہیں: 1۔حل مشکلات بخاری۔2۔الامر المبرم لابطال الکرام المحکم۔3۔ماء حمیم للمولوی عمر کریم۔4۔صراط مستقیم لہدایۃ عمرکریم، 5۔الریح العقیم لحسم بناءعمر کریم، 6۔الارجون القدیم فی افشاء الفوات عمرکریم۔7۔الرای العظیم لمولوی عمرکری۔یہ تمام کتابیں مولاناعظیم آبادی نے اپنے خرچ سے شائع کرائیں۔ ٭ مولانا شبلی نعمانی کی تصانیف سے بے شمار لوگوں نے استفادہ کیا اور آئندہ کریں گے۔ان کی تصانیف میں ایک مشہور کتاب” سیرۃ النعمان“ ہے جو حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے حالات پر مشتمل ہے۔اس کتاب کے متعدد مقامات پر تاریخی اعتبار سے مولانا شبلی نے ٹھوکر کھائی ہے۔اس میں انھوں نے محدثین کو ہدف تنقید ٹھہرایا ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو بالخصوص نشانہ نقد وجرح قراردیا ہے۔یہ کتاب پڑھ کر مولانا عظیم آبادی نے ضروری سمجھا کہ امام بخاری کے حالات میں ایک مستقل کتاب لکھی جائے، جس میں امام کے محدثانہ کارناموں اور ان کی تحقیقی عظمت کو اجاگر کیا جائے، چنانچہ اس کے لیے انھوں نے اپنے عہد کے بہت بڑے محقق حضرت مولانا عبدالسلام مبارک پوری سے بات کی اور انھیں”سیرت البخاری“ لکھنے پرآمادہ کیا۔طباعت وغیرہ کے سلسلے میں تعاون کے علاوہ کتاب کے سو نسخے خریدنے کا وعدہ فرمایا، لیکن افسوس ہے کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی مولانا عظیم آبادی (1911ء میں) وفات پاگئے۔یہ کتاب اپنے موضوع کی بے مثال کتاب ہے۔ |