حاصل کی۔ اس کے علاوہ بھی مختلف اوقات میں وہ متعدد مرتبہ شیخ موصوف کی خدمت میں حاضر ہو کر مستفید ہوئے۔ ابتدائے زندگی ہی سے مولانا اتباع سنت کے پابند اور اعمال و عقائد میں صحابہ و تابعین اور سلف صالحین کے نقطہ نظر کو اپنانے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔اس سلسلے میں وہ خود فرماتے ہیں: مولانا عظیم الدین نگر نہسوی (متوفی 1306ھ) کے پند ونصائح سے بڑا فائدہ حاصل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اتباع سنت کا شوق انہی کے واسطے سے ہم کو عطا فرمایا ہے اور میرے رفیق حبیب مولوی تلطف حسین محی الدین پوری(1334ھ) نے بھی ان امور میں میری مدد کی ہے۔(جزاهما اللّٰه خيرا) [1] پہلے بتایا گیا ہے کہ مولانا عظیم آبادی پہلی دفعہ حصول علم کے لیے محرم 1293ھ کو مولانا بشیر الدین قنوجی کے پاس مراد آباد گئے اور ربیع الاول 1294ھ کو واپس ڈیانواں آئے تھے۔تقریباً سوا سال مولانا قنوجی کی خدمت میں رہے۔ واپسی کے چندروز ہی 15۔ربیع الاول 1294ھ(30۔مارچ1877ء)کو ان کی شادی چھپرہ کے ایک مولوی عبداللطیف صدیقی کی صاحبزادی سے ہوئی۔اس وقت وہ اکیس برس کے جوان رعنا تھے۔ سلسلہ درس و تدریس حضرت میاں صاحب سے پہلی مرتبہ سند حدیث لے کر مولانا عظیم آبادی محرم 1296ھ(جنوری 1879ء) میں اپنے وطن ڈیانواں واپس آئے تھے اور آتے ہی درس و تدریس اور دیگر علمی کاموں میں مشغول ہوگئے تھے۔اس وقت ان کی عمر تئیس سال کی تھی۔ اس سے چھ سال بعد 1302ھ میں دوبارہ میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے1303ھ میں واپس تشریف لائے تو پھر باقاعدگی کے ساتھ مسند درس آراستہ کی اور اپنے آپ کو تدریس کے لیے وقف کردیا۔ان کی وجہ سے اس چھوٹے سے گاؤں کو بے حد شہرت حاصل ہوئی اور عرب، ایران، افغانستان وغیرہ کے بے شمار طلبائے علم ان کی خدمت میں حاضر ہونے اور تحصیل علم کرنے لگے۔مولانا سب سے نہایت لطف و کرم سے پیش آتے اور بڑی محبت اور شفقت سے انھیں مختلف علوم متداولہ کی کتابیں پڑھاتے، لیکن حدیث ان کا خاص موضوع تھا، چنانچہ حدیث اور اس سے متعلقہ علوم کی تعلیم انتہائی رغبت و شوق کے ساتھ دیتے۔ طلبا کے لیے وہ خود ہی کتابیں مہیا فرماتے، خود ہی ان کے ضروری اخراجات کی کفالت کرتے اور خود ہی ان کے خوردونوش کا انتظام کرتے۔مہمانوں کی آمدورفت بھی ان کے پاس بكثرت |