منطق، فقہ اصول فقہ اور حدیث کے علوم پر مشمل ہیں۔ اس اثنا میں اپنے ماموں مولوی نور احمد ڈیانوی سے بھی استفادے کا سلسلہ جاری رہا۔ تحصیل علم کے لیے پہلی دفعہ 1296ھ میں ڈیانواں سے باہر نکلے اور لکھنؤ پہنچے۔اس وقت وہ انیس برس کے خوبصورت جوان تھے۔ لکھنؤ میں مولانا فضل اللہ لکھنوی سے معقولات کی بعض کتابوں کی تکمیل کی۔ ایک برس وہاں رہے۔پھر26محرم1293ھ(22۔فروری1876ء)کو مولانا بشیر الدین قنوجی کی خدمت میں مراد آباد چلے گئے، ان سے کافی استفادہ کیا۔ ایک سال وہاں قیام رہا وہاں سے ربیع الاول 1294(اپریل 1877ء)میں واپس ڈیانواں تشریف لے گئے۔اس سے دوڈھائی مہینے بعد 20جمادی الاولیٰ 1294ھ (2جون 1877ء)کو دوبارہ مراد آباد کا عزم کیا اور مولانا بشیر الدین قنوجی کی خدمت میں حاضری دی۔ ان سے معقولات اور معانی و بلاغت کی کتابوں کے علاوہ قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا اور تفسیر، حدیث اور فقہ و عقائد کی تعلیم حاصل کی۔ حضرت میاں صاحب کی خدمت میں 1295ھ کے محرم کی ابتدائی تاریخوں میں حضرت میاں سید نذیر حسین کی خدمت میں دہلی تشریف لے گئے اور ان سے علم حدیث میں مستفید ہوئے۔آخر محرم 1296ھ (جنوری 1879ء) میں میاں صاحب سے سند حدیث حاصل کی اور اپنے وطن واپس آئے۔[1] ایک سال ان کی خدمت میں رہے۔ وطن آکر درس وتدریس اور تصنیف و تالیف میں مشغول ہوگئے۔چھ سال بعد 1302ھ میں پھر عازم دہلی ہوئے اور حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضری دی۔کچھ عرصہ ان سے استفادہ کی اور دوسری دفعہ سند لے کر 1303ھ میں اپنے وطن ڈیانواں تشریف لائے۔ دونوں مرتبہ دہلی میں میاں صاحب کی خدمت میں قیام کا عرصہ ڈھائی سال کے قریب ہے۔ اس عرصے میں ان سے ترجمہ قرآن پڑھا، نیز جلالین، صحاح ستہ، موطا امام مالک، سنن دارمی، سنن دارقطنی اور شرح نخبۃالفکر (نزہتہ النظر) کتابیں سبقاً سبقاً پڑھیں اور فتوے بھی قلم بند کیے۔[2] حضرت مولاناشمس الحق دہلی کے دوسرے سفر میں شیخ حسین بن محسن یمانی انصاری (متوفی1327ھ) کی زیادت سے بھی مشرف ہوئے اور صحاح ستہ کے اطراف پڑھ کر ان سے عام اجازت |