ہوئے۔ دنیوی وجاہت کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی میں دستگاہ رکھتے تھے۔19۔جمادی الاولیٰ 1287(22۔ نومبر1861ء) کو انتقال ہوا اور ڈیانواں میں مدفون ہوئے۔ اب آئیے حضرت مولانا شمس الحق کی طرف۔۔۔۔! ولادت مولانا ممدوح 27۔ذیقعدہ 1273ھ(19جولائی 1857ء) کو عظیم آباد (پٹنہ)کے محلہ رمنہ میں اپنے نانیہال کے گھر پیدا ہوئے۔ یہ زمانہ ہندوستان میں نہایت ہنگاموں کا زمانہ تھا۔ اسی زمانے میں ہندوستان کی مغل حکومت کا خاتمہ ہوا اور یہ وسیع ملک انگریزوں کے قبضے میں آیا۔ مسلمان بالخصوص اس زمانے میں مصائب کا شکار ہوئے۔یہ ایک طویل اور دردناک داستان ہے۔ جس کے بیان کا یہ محل نہیں۔ حضرت مولانا شمس الحق پانچ سال کی عمر کے ہوئے تو اپنی والدہ کے ساتھ ڈیانواں چلے گئے اور وہیں مستقل طور سے اقامت اختیار کر لی۔ان کی والدہ بھی یہیں سکونت پذیر تھیں۔ ڈیانواں ان کے نانیہال کا گاؤں تھا جو ضلع پٹنہ (عظیم آباد) کا ایک ریلوے اسٹیشن ہے۔یہ گاؤں مسلمان شرفا کا مسکن تھا اور یہاں کے لوگ علم وشائستگی میں شہرت رکھتے تھے۔ مولانا شمس الحق نے آگے چل کر گاؤں کی سکونت کے اعتبار سے ڈیانوی اور ضلعی اعتبار سے عظیم آبادی کی نسبت سے شہرت پائی۔چنانچہ مولا نا ڈیانوی یا مولانا عظیم آبادی سے یہی مولانا شمس الحق مراد ہیں۔ 1282ھ(68۔1867ء)میں جب کہ مولانا شمس الحق کی عمر صرف گیارہ سال کی تھی، ان کے والد مکرم مولوی امیر علی وفات پاگئے۔ان کی والدہ، نانی اور بڑے ماموں مولوی محمد احسن نے نہایت ذمہ داری سے ان کی تربیت کی اور ان کی تعلیم کا اہتمام کیا۔ تعلیم کا آغاز اور مختلف اساتذہ سے استفادہ مولانا محمد ابراہیم نگرنہسوی اس نواح کے مشہور عالم تھے، ان سے تعلیم کا آغاز کیا اور انھوں نے سورۃ”اقراء“پڑھائی۔ پھر ڈیانواں ہی میں حافظ اصغر علی رام پوری، مولوی سید راحت حسین تھوی اور مولوی عبدالحکیم شیخ پوری سے ابتدائی کتابیں پڑھیں۔فارسی کی بعض کتابوں میں بھی انہی سےاستفادہ کیا۔ بعد ازاں مولانا لطف العلی بہاری سے باقاعدہ عربی تعلیم کا آغاز کیا۔ ان سے شرح جامی، قطبی میبذی، اصول شاشی، نوار، شرح وقایہ، کنزالدقائق اور جامع ترمذی وغیرہ کتابیں پڑھیں جو نحو، |