سمجھنا چاہیے۔ان کے ارتکاب سے بچنا چاہیے۔ ● کسی عوامی جلسے میں اپنے کسی ساتھی مقرر کی تقریر میں کوئی ایسی بات سنتے جو لوگوں میں تومشہور ہوتی، مگر شرعی اعتبار سے پایۂ ثبوت کو نہ پہنچتی تو اس مقرر کو اس کی غلطی کی طرف متوجہ فرماتے اور جلسہ عام میں اس کی خود تردید کرتے یا مقرر سے کہتے کہ وہ اس غلط بیانی کی تردید کرے۔اس ضمن میں ان کے اندازِ بیان میں بعض اوقات تشدد بھی آجاتا تھا۔ ● وہ پسِ پشت کسی کی برائی نہ کرتے، اپنی زبان کو کسی کی غیبت سے آلودہ نہ ہونے دیتے۔ان کے طرزِ بیان میں بعض مواقع پر سختی کا عنصر غالب آجاتا تھا، لیکن اس کا تعلق ان کی حق گوئی سے تھا۔خواہ مخواہ کسی کو پریشان کرنا ان کا مقصد ہر گز نہیں ہوتا تھا۔ ● وہ خوش خصال، صالح فطرت اور عمدہ سیرت عالم دین تھے۔برائی کو برداشت کرنا اور برائی کا ارتکاب ہوتے ہوئے دیکھنا اور خاموش رہنا ان کی فطرت کے خلاف تھا۔سچی بات یہ ہے کہ صالحیت اسی کا نام ہے اور نیکی کے اصل آثار یہی ہیں۔اس سے محرومی صالحیت سے محرومی ہے۔ سنا ہے کہ ان کے کسی قریبی عزیز کی شادی تھی۔دیکھا کہ دولھا میاں نے سہرہ باندھا ہوا ہے۔فرمایا سہرہ اتار دو۔اس نے اتار دیا۔ پھر دیکھا کہ سر کے بالوں کی کٹنگ خلافِ شرع ہے۔فرمایا بال کتراؤ۔اس نے کتروا دیے۔ کسی کے ہاتھ میں چھوٹا سا ریڈیو تھا۔فرمایا اسے کہیں رکھ دو، اس نے رکھ دیا۔ بلاشبہہ وہ گفتار میں، کردار میں اللہ کی برہان تھے۔خیر و صالحیت کا پیکر |