طالب علم تھے جو قرآن حفظ کرتے تھے اور دینیات کی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے۔اسی شہر میں حافظ محمد یوسف نے مولانا احمدالدین سے کسبِ علم کیا اور پھر وہ مشہور عالمِ دین اور مبلغِ اسلام ہوئے۔حافظ محمد یوسف کے علاوہ بھی لازماً ان سے تھوڑے بہت شائقینِ علم نے اخذِ علم کیا ہو گا۔حافظ صاحب طبعاً دینی معاملات میں خاموش رہنے والے نہیں تھے۔وہ ضرور چھوٹے بڑوں کو تحصیلِ علم کی ترغیب دیتے ہوں گے اور ان کی ترغیب سے متاثر ہو کر تھوڑی یا زیادہ تعداد میں طلبا نے مولانا احمد الدین سے حصولِ علم کیا ہو گا۔وہاں جو اتنی تعداد میں لوگوں نے مسلکِ اہلِ حدیث قبول کیا اور اس مسلک کی ایک مسجد کے بعد کتنی ہی مسجدیں تعمیر ہوئیں، یہ انہی السابقون الاولون حضرات کی تبلیغ کا نتیجہ ہے۔ اگر مولانا احمد الدین نے کسی کو علم نہیں پڑھانا تھا تو خود کیوں پڑھا؟ بے شک تحصیلِ علم کے بعد انھوں نے آگے بھی پڑھایا اور پڑھانے کا آغاز اپنے شہر سے کیا۔اگرچہ اس کی تفصیل کا پتا نہیں چلتا تاہم قرائن بتاتے ہیں کہ وہاں کے طلبا میں حافظ محمد یوسف گکھڑوی اور بعض دیگر حضرات شامل ہوں گے۔ مولانا احمد الدین نے وزیرآباد میں حضرت حافظ عبدالمنان اور مولانا عمرالدین کی مسجد میں خطابت کا سلسلہ شروع کیا۔وہاں بھی پہلے سے طلبا تعلیم حاصل کر رہے تھے۔مولانا احمد الدین نے وہاں بھی پہلے اساتذہ کی طرح تھوڑا یا زیادہ عرصہ طلبا کو پڑھایا ہو گا۔ پھر فیصل آباد کی جامع مسجد اہلِ حدیث(امین پور بازار)میں وہ خطیب مقرر ہوئے تو اس مسجد میں بھی دو چار یا اس سے زیادہ طالب علموں کو پڑھاتے رہے ہوں گے۔بعض معاملات نفیاً یا اثباتاً واضح نہیں ہوتے، ان کا فیصلہ قرائن اور ماحول کی فضا سے کیا جاتا ہے۔ چند مہینے پیشتر حضرت مولانا محمد علی جانباز کے صاحب زادہ گرامیِ قدر جناب |