جماعتِ غرباے اہلِ حدیث سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے سربراہ مولانا عبداللہ اوڈ تھے جو چودھری قسم کے آدمی تھے اور صوبہ پنجاب کی جماعت غرباے اہلِ حدیث کے منصبِ امارت پر فائز تھے، وہ بھی مجلسِ مناظرہ میں تشریف فرما تھے۔لڑائی جھگڑے کے خطرے کے پیشِ نظر پولیس کے چند آدمی بھی موجود تھے۔ مناظرہ شروع ہوا۔مولانا احمد الدین گکھڑوی کے مقابلے میں خود حضرت حافظ عبدالستار صاحب امام غرباے اہلِ حدیث مناظر تھے۔اوڈوں کی وجہ سے فضا بڑی گرم تھی۔مولانا احمدالدین گکھڑوی نے اپنے موقف کے حق میں دلائل دینا شروع کیے تو تیسری باری میں حضرت حافظ صاحب کی آواز کا جلال نرم پڑگیا اور مناظرے کا پانسا پلٹنے لگا۔پھر صورتِ حال نے ایسا رخ اختیار کر لیا جو محترم المقام حضرت امام صاحب کی عقیدت مند اوڈ برادری کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔چنانچہ مولانا عبداللہ اوڈ کے اشارے سے اوڈوں نے(جو اسی کام کے لیے لائے گئے تھے)ایک دم ہنگامہ بپا کر دیا اور لمحہ بھر میں ان کی لاٹھیاں فضا میں لہرانے لگیں۔پھر لوگ یہ کہتے ہوئے منتشر ہوگئے کہ دلی کے اردو بولنے والے عالم کے لیے پنجاب کے مولوی احمد الدین کے ’’وارے آنا بہت اوکھا‘‘ کام ہے۔انھوں نے مناظرے سے بچنے کے لیے اوڈوں کو پکارا اور اپنی ہار کو لڑائی میں بدل دیا۔ سب کچھ جاننے کے باوجود میں جماعت غرباے اہلِ حدیث کے سلسلے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔صرف یہی عرض کروں گا کہ تقسیمِ ملک سے قبل بعض فروعی مسائل کی تعبیر میں ان حضرات میں سختی کا عنصر غالب تھا۔لیکن اس کے بعد حالات بدل گئے۔اس جماعت کا مرکزی دفتر کراچی ہے اور ان کا پندرہ روزہ جریدہ ’’صحیفہ اہلِ حدیث‘‘ بھی وہیں سے شائع ہوتا ہے۔اپنے انداز کا یہ بہت اچھا جریدہ ہے جو صاف زبان میں قاری کو بہترین مواد دیتا ہے۔طویل مدت سے میں اس کا مستقل |