اس خط میں جناب ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب نے محدث مبارکپوری کے بارے میں بالکل واضح طور پر اپنے طبعی رجحان کی وضاحت فرما دی ہے کہ مجھے نہیں یاد میں نے عمر بھر ان کے بارے میں ایسی کوئی چیز تحریر کی ہو۔اس کے برعکس محدث مبارکپوری کی خدماتِ حدیث کو سراہا،ان کے بارے میں اپنے کلی احترام کا ذکر کیا اور محدث مبارکپوری کے بارے میں اپنی طرف منسوب آرا سے قطعی طور پر انکار کر دیا،بلکہ اس قسم کے رویے سے اﷲ کی پناہ کے طلب گار ہیں۔
مذکورہ بالا خطوط کے مطابق جناب ڈاکٹر حمید اﷲ کا محدث مبارکپوری کے بارے میں یہ رویہ ۱۴۱۲ھ / ۱۹۹۲ء یعنی اپنی طویل عمر کے آخری دور کا احترام بھرا رویہ ہے۔خدانخواستہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی عمر کے کسی دور میں کوئی ایسی بات لکھی بھی تھی،تب بھی وہ اس معذرت نامے کے بعد اس سے بَری ہیں۔لیکن خط سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب محدث مبارکپوری کے بارے میں عمر بھر کبھی ایسے بے ہودہ الفاظ اپنی نوکِ قلم پر نہیں لائے۔ان کی تحریریں مجموعی طور پر دیگر اربابِ علم و فضل کے بارے میں اسی رجحان کی عکاسی کرتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے انکار کے بعد غالباً یہ حاشیہ آرائی محدث مبارکپوری سے مخاصمت رکھنے والے مخصوص گروہ کے کسی ایسے فرد کی کارستانی ہے،جو ڈاکٹر صاحب کے انتہائی قریبی حلقے سے تعلق رکھتا ہے اور ڈاکٹر صاحب کے نام پر یہ کھیل کھیلتا رہا ہے۔بہر حال ڈاکٹر صاحب اپنی براء ت کا علانیہ اظہار کر چکے ہیں۔
مولانا حبیب الرحمن اعظمی کے ذکر کردہ خط کی تاریخِ تحریر ۱۳/ صفر ۱۳۸۱ھ ہے،جب کہ میرے پاس ڈاکٹر صاحب کے ۱۴۱۲ھ کے خطوط ہیں۔اہلِ علم کی دنیا میں مستند اصول’’إنما الأعمال بالخواتیم’‘کے تحت اعظمی صاحب والے خط میں ڈاکٹر صاحب سے منسوب محدث مبارکپوری کے بارے میں رویہ اب قطعاً لائقِ ذکر و التفات نہیں ہے،بلکہ اس سے تقریباً ۳۰ سال بعد ۱۴۱۲ھ میں تحریر کردہ خطوط میں پایا
|