شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ سابقین اولین سے بغیر کسی شرط کے راضی ہوئے ہیں اورتابعین سے صرف اس شرط پر رضا مندی کا اظہار فرمایا ہے کہ وہ احسان کے ساتھ ان کی پیروی کریں ۔‘‘ [1] اور امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے اقوال میں سے یہ قول بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مونہوں میں کنکریاں رکھا کرتے تھے۔جب وہ کسی ایسی چیز کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے جس کے متعلق انہیں یہ علم ہوتا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی ہے اس کی رضاکے لیے اور اس کی منشاء کے مطابق ہے تو وہ کنکر نکال دیتے اوربیشک بہت سارے صحابہ سانس بھی ایسے لیتے تھے جیسے کوئی غرق ہونے والا [پانی میں ڈوبا ہوا] شخص سانس لیتا ہے اور مریضوں کے مشابہ باتیں کرتے تھے۔‘‘ [2] یہی وجہ تھی کہ ان کے امور اصلاح پر گامزن تھے۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’بیشک اس امت کے اولین کی اصلاح زہد اور یقین پر تھی اور اس امت کے آخری لوگوں کی ہلاکت بخل اور لمبی امیدوں کی وجہ سے ہوگی۔‘‘ [3] اس عظیم الشان اور مثالی نسل انسانی کی عظمت یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں آنے والوں کومنع فرمایا ہے کہ وہ انہیں برے الفاظ میں یاد کریں یا ان کی شان میں کوتاہی کریں ۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس غیب سے آگاہ کردیا تھا تاکہ آپ کو پتہ چل جائے کہ آگے چل کر کیا ہونے والا ہے۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إذا ذکر أصحابی فامسکوا۔)) [4] ’’جب میرے صحابہ کا ذکر ہو تو اپنی زبانوں کو روک لو۔‘‘ اور ایک دوسری روایت میں ہے: |
Book Name | دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین |
Writer | قسم الدراسات والبحوث جمعیۃ آل واصحاب |
Publisher | دار المعرفہ ،پاکستان |
Publish Year | |
Translator | الشیخ شفیق الرحمٰن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 406 |
Introduction |