Maktaba Wahhabi

88 - 406
اے اللہ ! جو کچھ انہوں نے تیری رضا پانے کے لیے تیری راہ میں چھوڑا ہے اسے بھلا نہ دینا اور انہیں اپنی رضامندی پر راضی کرلے۔ اے اللہ! ان پر مخلوق ناراض ہوئی ہے۔یہ تیرے رسول کے ساتھ مل کر تیری طرف دین کی دعوت دیتے تھے۔ اے اللہ ! تیری رضاکیلئے انہوں نے اپنے دیار قوم اور گھربار کو چھوڑا۔ ان کی قدردانی کرنا۔ یہ وسعت معاش سے نکل کر تنگی کی طرف آئے۔ اپنی کثرت سے تیرے دین کی خاطر نکل کر مظلومیت کی طرف آئے۔ اے اللہ! اس کا اجران تابعین کو بھی دینا جنہوں نے احسان کے ساتھ ان کی پیروی کی ؛ جو کہتے ہیں : ﴿ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ﴾[الحشر:۱۰] ’’اور جو ان کے بعد آئے وہ دعا کرتے ہیں : ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں مؤمنوں کے متعلق کینہ نہ ڈال، اے ہمارے رب! بیشک تو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔‘‘ اے اللہ ! انہیں وہ بہترین جزائے خیر عطاء فرمایا جس کی وہ تجھ سے امید رکھتے تھے۔اور اپنی پوری بصیرت کے ساتھ اس کی تلاش میں رہتے تھے اور ان کے نقش قدم پر چلنے اور ان کے آثار کی پیروی کرنے میں کسی قسم کے شک و شبہ کا شکار نہیں ہوئے اور وہ ان کے دین کو اپنائے ہوئے ہیں اور ان کی راہ پر گامزن ہیں ۔ وہ ان کے ساتھ متفق ہیں اور ان پر امانت ادا کرنے کے بارے میں کسی قسم کے شک و شبہ کا اظہار نہیں کرتے ۔‘‘ [1] اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں ہے کہ امام سجاد رحمہ اللہ بھی اہل عراق کے سامنے صحابہ کے فضائل بیان کرنے میں اپنے دادا حضرت امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے منہج پر گامزن رہے ۔ حضرت باقر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عراق میں فجر کی نماز پڑھی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں میں وعظ کیا خوف الٰہی سے خود بھی روئے اور لوگوں کوبھی رلادیا۔ پھر فرمایا: ’’ ہاں ؛ لوگو! اللہ کی قسم ! میں نے اپنے حبیب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایسے لوگوں کو پایا
Flag Counter