’’ان درخت والوں میں سے کوئی ایک بھی جہنم میں نہیں جائے گا ان شاء اللہ جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’رضامندی اللہ تعالیٰ کی قدیم صفت ہے۔اللہ تعالیٰ صرف اس انسان سے راضی ہوتے ہیں جس کے متعلق وہ جانتے ہیں کہ وہ رضا مندی کے تقاضوں کو پورا کرے گا اور جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجاتے ہیں پھر اس پر کبھی ناراض نہیں ہوتے۔پس وہ تمام حضرات جن کے بارے میں اس نے خبر دی ہے کہ وہ ان سے راضی ہوگیا ہے وہ اہل جنت میں سے ہیں بیشک ان سے اس کی رضا ایمان اور اعمال صالحہ کے بعد ہوئی تھی۔ اس لیے کہ اس رضامندی کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدح و ثناء کے شروع میں کیا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کو یہ علم ہوتا کہ ان نیک اعمال کے بعد یہ لوگ ایسے کام کریں گے جن سے ان کا رب ناراض ہوتا ہو تو پھر وہ اس رضا مندی کے اہل نہ ہوتے۔‘‘ [1] علامہ ابن حزم رحمہ الله فرماتے ہیں : ’’ پس جن لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بتارہے ہیں کہ اس نے ان کے دلوں کے احوال کو جان لیا اور ان سے راضی ہوگیا اور ان پر سکون نازل فرمایا، تو پھر کسی ایک کے لیے حلال نہیں کہ ان کے بارے میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کا اظہارکرے۔‘‘[2] اللہ تعالیٰ ان حضرات کے بارے میں یہ بھی فرماتے ہیں : ﴿ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللّٰهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ﴾ [الحج: ۷۸] ’’ اسی نے تمہارا نام پہلے سے مسلمان رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ رسول تم پر گواہ بنے اور تم لوگوں پر گواہ بنو سو نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ کو مضبوطی سے پکڑو وہی تمہارا مولی ہے پھر کیا ہی اچھامولی اور کیا ہی اچھا مددگار ہے۔‘‘ اس کی تفسیر میں کئی اقوال ہیں ۔ پہلا قول یہ ہے کہ: ’’تاکہ تم لوگوں کے اعمال پر دنیا و آخرت میں ان کے متعلق گواہی دو کہ انہوں نے حق کی مخالفت کی تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : |
Book Name | دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین |
Writer | قسم الدراسات والبحوث جمعیۃ آل واصحاب |
Publisher | دار المعرفہ ،پاکستان |
Publish Year | |
Translator | الشیخ شفیق الرحمٰن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 406 |
Introduction |