Maktaba Wahhabi

73 - 406
کردیتی ہیں ۔ یہ ان کے لیے خاص ہے کسی دوسرے کے لیے نہیں ۔ اس لیے کہ ان کے حق میں یہ باتیں ثابت ہو چکی ہیں کہ یہ حضرات بخشے ہوئے ہیں اور اسباب کے بجا لانے کے بعد کوئی چیز مغفرت میں مانع نہیں ہوسکتی۔ اس کا تقاضا ہر گزیہ نہیں کہ وہ اپنی مغفرت پر یقین کرتے ہوئے شرعی فرائض کو معطل کردیں اور اگر یہ مغفرت استمرار کے ساتھ اوامر بجا لائے بغیر ہی حاصل ہوگئی ہوتی تو انہیں نماز و روزہ اور زکوٰۃ و حج کی اور جہاد کی کوئی ضرورت باقی نہ رہتی ۔ یہ سب باتیں محال ہیں ۔‘‘ [1] اوراللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللّٰهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيبٌ ﴾ [البقرۃ: ۲۱۴] ’’کیا تم نے سمجھ لیا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ تمہیں وہ (حالات) پیش نہیں آئے جو ان لوگوں کو پیش آئے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں انہیں سختی اور تکلیف پہنچی اور ہلا دیئے گئے یہاں تک کہ رسول اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کب ہوگی۔ سنو! بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘ نوری الطبرسی نے کہا ہے : ’’ یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مہاجراصحاب کی شان میں نازل ہوئی جو اپنا گھر بار چھوڑ کر اور اموال ترک کرکے مدینہ چلے گئے تھے۔اور انہیں بہت تکلیف اٹھانا پڑی تھی۔‘‘[2] ان کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو شعر کہے ہیں ؛ ان کا ترجمہ یہ ہے : ’’ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ قرآن لیکر آئے جس کی آیات اہل عقل کے لیے بالکل واضح ہیں ۔ قابل عزت لوگ ان پر ایمان لائے اور الحمد للہ کہ ان کی شیرازہ بندی ہوگئی اور کچھ لوگوں نے ان کا انکار کیا تو ان کے دلوں میں ٹیڑھا پن پیدا ہوگیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی گمراہی کو اور زیادہ بڑھا دیا اور اللہ تعالیٰ نے بدر کے دن اپنے رسول کو ان پر فتح عطاء فرمائی اور ایک غضبناک قوم نے ان میں اچھے اچھے کارنامے دکھائے اور ان کے سفید ہاتھوں میں یہ مشرکین گرفتار ہوکر آئے....‘‘[3]
Flag Counter