Maktaba Wahhabi

319 - 406
آپ کے گھر میں نقب لگا کر آپ کو نکال دیں ، حتیٰ کہ آپ اپنے امن کے مقام تک پہنچ جائیں ، تو آپ کے اطاعت گزار آپ کے نافرمانوں سے لڑیں ۔‘‘[1] حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’میں نے محصوری کی حالت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کی حفاظت کی خاطر قتال کر سکتے ہیں ۔‘‘[2] حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل نہ کرو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو کبھی بھی اکٹھے نماز نہیں پڑھ سکو گے۔‘‘[3] حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل ہونا دین اسلام میں نقب لگانا اور سوراخ کرنا تھا اور یہ زخم روزقیامت تک مندمل نہیں ہو سکتا اور خلافت اہل مدینہ میں تھی۔ انہوں نے خلافت کو وہاں سے باہر نکالا، دوبارہ کبھی بھی وہ واپس یہاں نہیں آئے گی۔‘‘[4] حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’میری ملاقات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہوئی آپ دس سال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے حج پر ان کے نائب تھے، جس سال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے۔ میں نے ان کے قتل ہونے کی اطلاع عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو دی۔ تو آپ پر یہ خبر بہت گراں گزری۔ او رکہنے لگے: اللہ کی قسم! آپ ان لوگوں میں سے تھے، جو عدل وانصاف کا حکم دیتے میری خواہش تھی کہ آج کے دن میں قتل ہو گیا ہوتا۔‘‘[5] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ عظیم الشان مؤقف پیش کرنے کے بعد ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ یہ حضرات نہ آپ کے قتل میں شریک تھے او رنہ اس جلیل القدر صحابی کے قتل پر راضی تھے۔ امامیہ کی اسناد کے مطابق مشہور شیعہ مؤرخ اپنی کتاب مروج الذہب میں کہتا ہے: ’’جب یہ خبر حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچی کہ باقی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا چاہتے ہیں ۔ تو آپ نے اپنے دونوں بیٹوں کو ان کے موالین کے ہمراہ مسلح کرکے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نصرت کے لیے ان کے دروازے پر بھیج دیا اور انہیں حکم دیا کہ ان شر پسندوں سے آپ کی حفاظت کریں ۔ حضرت زبیر نے اپنے بیٹے عبداللہ کو، اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے محمد کو، اور صحابہ نے
Flag Counter