Maktaba Wahhabi

320 - 406
اپنے بیٹوں کو ان حضرات کی اقتداء میں روانہ کیا، اور انہوں نے جاکر گھر کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔‘‘[1] & یہ دعوی کرنا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والوں میں پیش پیش تھیں ، یہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ اس روایت کا مدار نصربن مزاحم پر ہے۔ عقیلی نے اس کی بابت کہا ہے کہ یہ آدمی شیعہ تھا اور اس کی روایات میں اضطراب اور بہت زیادہ خطاء پائی جاتی ہے۔[2] علامہ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’بدترین رافضی تھا، اس وجہ سے متروک ہے۔‘‘[3] ابوخیثمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’بہت بڑا کذاب تھا۔‘‘[4] ابو حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’انتہائی ضعیف الحدیث او رمتروک تھا۔‘‘[5] دار قطنی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’ضعیف راوی ہے۔ ‘‘[6] علامہ جوزجانی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’نصر گمراہ اور حق سے ہٹا ہوا انسان تھا۔‘‘ صالح بن محمد رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’نصر بن مزاحم ضعیف راویوں سے منکر احادیث روایت کیا کرتا تھا۔‘‘ حافظ ابو الفتح محمد بن حسین رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ نصربن مزاحم اپنے مذہب میں غالی تھا۔‘‘[7] ان اقوال کی روشنی میں اس روایت کو بنیاد نہیں بنایا جاسکتا، اور نہ ہی یہ روایت قابل التفات ہے۔ بالاضافہ یہ ان صحیح روایات کے بھی خلاف ہے جو اس روایت کے متنا قض ہیں ۔ صحیح اور ثابت شدہ روایات سے یہ ثابت ہوتاہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مقتل عثمان رضی اللہ عنہ سے بڑادکھ اور تکلیف پہنچی۔ آپ نے قاتلین عثمان پر بددعا کی۔ حضرت مسروق رحمہ اللہ تابعی سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’ تم لوگوں نے اس کو ایسے چھوڑ دیا جیسے میل سے صاف وشفاف کپڑا پھر تم اس کے قریب ہوئے، اور انھیں ایسے ذبح کرنے لگے، جیسے مینڈھاذبح کیا جاتا ہے۔‘‘ مسروق کہتے ہیں : ’’میں نے ان سے کہا: یہ تو تمہارا کارنامہ ہے تم نے لوگوں کو خطوط لکھ کر انھیں بغاوت پر بھارا۔‘‘ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’مجھے اس ہستی کی قسم جس پر ایمان والے ایمان لائے اور کافروں نے جس کا کفر کیا۔ میں نے کسی سفید ورق پر اس مجلس میں بیٹھنے تک ایک سیاہ حرف بھی
Flag Counter