Maktaba Wahhabi

257 - 406
اوجھل رہی ہیں اور وہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے لوگوں سے زبردستی بیعت لی تھی۔ ٭.... حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا گھر جلانے کی حقیقت آگے آئے گی۔ ٭.... تنقید نگار کا یہ کہنا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود اس بات کی گواہی دی ہے کہ وہ بیعت اچانک ہو گئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے مسلمان کو بچا لیا اور یہ بھی کہا کہ پھر دوبارہ اگر کوئی ایسی حرکت کرے تو اسے قتل کر دو۔ یا یہ فرمایا: جو کوئی ایسی بیعت کی طرف بلائے تو اس کی کوئی بیعت نہیں ہو گی اور نہ ہی جس کے لیے بیعت لی جا رہی ہے۔ ردّ: ....میں کہتا ہوں اس سیاق کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت وارد ہی نہیں ہوئی۔ نہ ہی بخاری میں اور نہ ہی کسی دوسری کتاب میں ۔ بلکہ یہ ایک لمبی حدیث میں وارد ہوا ہے جسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے، اس میں ہے: ’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، تاکہ ان کہ شبہات پر رد کر سکیں جو لوگوں کے درمیان پھیلائے جا رہے ہیں کہ فلاں کا معاملہ ایسے ہوا۔ آپ کے جملہ کلام میں سے یہ بھی تھا کہ پھر مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ تم میں سے کوئی کہنے والا یہ کہتا ہے کہ اللہ کی قسم! اگر عمر کا انتقال ہو گیا تومیں فلاں شخص کی بیعت کرلوں گا۔ کوئی شخص دھوکا میں آکر یوں نہ کہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ایک عاجلانہ اقدام تھاجو پایہ انجام کو پہنچا۔ بے شک بات یونہی تھی مگر اﷲ نے اس کی برائی سے بچا لیا۔ تم میں سے ایک شخص بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا نہیں ،جس کی خاطر گردنیں کٹوائی جائیں جیساکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے کیا جاسکتا تھا۔جس شخص نے کسی کے ہاتھ پر مسلمانوں سے مشورہ کئے بغیر بیعت کرلی تو اس کی بیعت نہ کی جائے۔ جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کریں ، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔‘‘[1] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ اس کے لیے پہلے سے کوئی تیاری نہیں تھی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت اچانک بغیر کسی تیاری کے ہو گئی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کے فتنہ اور شر سے بچا لیا اور اس کی علت براہ راست اور فوری طور پر بیعت کا سبب بھی بیان کیا کہ تم میں کوئی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا نہیں ہے جس کے لیے گردنیں کٹوا دی جائیں ۔ مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی بھی فضیلت اور مرتبہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ پس اس کے دلائل بڑے واضح ہیں اور لوگوں کے اس اجماع کو کوئی بھی رد نہیں کر سکتا۔
Flag Counter