Maktaba Wahhabi

258 - 406
علامہ خطابی فرماتے ہیں : ’’ تمہارے سابقین میں سے بھی کوئی ایک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور مقام مرتبہ کو نہیں پا سکتا اور کوئی ایک یہ طمع نہ رکھے کہ اس کے لیے بھی ویسے ہی ہو گا جیسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے ہوا تھا کہ ان کی بیعت پہلے کچھ تھوڑے سے لوگوں میں ہوئی اور پھر اجتماع عام میں اور کسی نے اس پر اختلاف نہیں کیا کیونکہ سبھی آپ کے استحقاق کے معترف تھے۔ اس لیے دوبارہ غور و فکر اور مشورہ کی ضرورت ہی نہیں پڑی اور کوئی دوسرا آپ کی مانند نہیں ہے۔‘‘[1] یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان کا ایک طبعی سبب ہے ۔اس لیے کہ آپ کو یہ علم ہوا تھا کہ کسی نے یہ بات کہی ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا تو میں فلاں کی بیعت کروں گا۔ اس کی مراد ایسا کام کرنا تھا جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا تھا۔ یہ بات مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے کہ لوگ کسی ایک پر ایسے جمع ہو جائیں جیسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر جمع ہوئے تھے۔ پس جو کوئی مسلمانوں کی اجتماعیت سے ہٹ کر انفرادی طور پر بیعت لے تو گویا اس نے اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے ساتھی کو اور اپنی ذات کو دھوکا دیا اور ان دونوں کو قتل کے لیے پیش کر دیا۔ اب یہ معلوم ہو گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس معاملہ میں درحقیقت کیا کہنا چاہتے تھے۔ مگر اس دھوکا باز تنقید نگار نے عبارت کو کانٹ چھانٹ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے اور اس کا سبب نقل نہ کرنے کی وجہ بھی اب سمجھ میں آ گئی اور جب سبب کا پتا چل گیا تو وہ دلیل ہی باطل ٹھہری جس کی کوئی سند ہی نہیں ۔ بلکہ معاملہ الٹا ان کے گلے میں پڑ گیا۔ اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس کلام کا مقصد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا اظہار کرنا تھا جس پر لوگوں کا اجماع ہے۔ حقیقت میں یہ واقع ایسے پیش آیا تھا، تاریخ اس پر گواہ ہے اور جس کا خیال یہ ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں کوتاہی یا تنقیص ہے تو اسے جان لینا چاہے کہ درحقیقت یہ اس کی سمجھ اور عقل کی کمی اور کوتاہی ہے۔ ٭.... پھریہ تنقید نگار کہتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلافت کے متعلق فرمایا: اللہ کی قسم! اسے ابن ابی قحافہ نے چور کر کے رکھ دیا اور وہ خلافت میں میرا حق جانتے تھے۔ میرا مقام خلافت میں ایسے ہے جیسے چکی کا پاٹ جس سے سیلاب ایک طرف ہو کر گزر جاتا ہے اور پرندہ وہاں تک پہنچ نہیں پاتا۔ ردّ:.... (۱) ہم کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان اور مقام اس سے بلند و بالا ہے کہ آپ حضرت
Flag Counter