Maktaba Wahhabi

256 - 406
سکے۔ اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ جیسا کہ نہج البلاغہ میں ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: میری عمر کی قسم! اگر امامت کا انعقاد عوام الناس کی موجودگی کے بغیر نہ ہوتا تو پھر اس کی کوئی راہ ہی نہیں ۔ لیکن اہل بیعت غائب لوگوں کو اسی حکم میں شمار کرتے ہیں ۔ حاضر کو بیعت سے رجوع کرنے کی اجازت نہیں اور غائب کو کسی دوسرے کی بیعت کا اختیار نہیں ۔ اعتراض:.... پھر یہ تنقید نگار اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت بغیر کسی مشورہ کے ہوئی۔بلکہ اس کا انعقاد لوگوں کی غفلت کی گھڑی میں ہو گیا۔ خاص طور پر ان میں سے اہل حل و عقد حضرات جیسا کہ مسلمان علمائے کرام نے بیان کیا ہے کہ وہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے۔ اہل مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ناگہانی موت کے صدمہ سے دوچار تھے کہ انہیں زبردستی بیعت پر مجبور کر دیا گیا۔ اس کا اندازہ اس دھمکی سے بھی ہوتا ہے جو انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا گھر جلانے کے لیے دی تھی، اگر انہوں نے چھپے ہوئے لوگوں کو بیعت کے لیے نہ نکالا توپھر اس کے بعد ہمارے لیے یہ کہنا کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ یہ بیعت مشورہ اور اجماع سے طے پائی تھی۔ ردّ:.... اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت غفلت میں اور مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر ہوتی ہے، جیسا کہ اس تنقید نگار کا دعویٰ ہے تو یہ اس کے کلام میں کھلا ہوا تضاد ہے، کیونکہ اس سے پہلے یہ کہہ چکا ہے کہ بعض صحابہ بیعت سے پیچھے رہ گئے تھے تو کیا مسلمان ایک چھوٹی سے جماعت تھی؟ امامیہ اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں ۔ یہ ایک شیعہ اثنا عشری عالم حسن بن موسیٰ نوبختی ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’فرق الشیعہ‘‘ میں اقرار کرتے ہوئے کہتا ہے: سواد اعظم کی جمہور اکثریت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہو گئی یہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمع اور ان پر راضی رہے۔[1] ایک دوسرا شیعہ عالم ابراہیم الثقیفی ہے، وہ اپنے ایک رسالہ میں اپنے ساتھیوں کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول پیش کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا: مجھے اس بات کی پروا نہیں ہوئی کہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے تاکہ اس کی بیعت کریں ۔[2] پھر اس کتاب کا شارح لوگوں کے چلے جانے (انثیال للناس) کی شرح کرتے ہوئے لکھتا ہے: یعنی لوگ ہر طرف سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف ٹوٹ پڑے تھے۔ جیسے کہ مٹی ہوا میں اڑ کر کہیں جمع ہو جاتی ہے۔[3] مگر پھر بھی یہ تنقید نگار آ کر ایسی چیزوں کا انکشاف کرتا ہے جو کہ اہل سنت اور شیعہ سبھی لوگوں سے
Flag Counter