Maktaba Wahhabi

252 - 406
﴿ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ﴾ [الشوری: ۳۸) ’’اور ان کا کام آپس میں مشورہ کرنا ہے۔‘‘ اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں کہ آپ بار بار یہ اقرار کرتے تھے کہ بے شک شوری مہاجرین و انصار میں ہے ۔ جب ان کا کسی انسان پر اجماع ہو جائے اور وہ اسے اپنا امام کہیں تو اس میں اللہ کی رضامندی ہے اور اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مہاجرین و انصار کے متعلق یہ کہو کہ: ایسا ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں گمراہی پر جمع کر دے اور ایک روایت میں ہے کہ گمراہی پر لگا دے، یا انہیں اندھا پن نقصان دے۔ خوارج جو کہ آپ کو غلط اورگمراہ کہہ رہے تھے آپ ان سے فرماتے ہیں : ’’اور اگر تم نہ مانو اور اسی بات پر اڑے رہو کہ میں نے غلطی کی ہے اور گمراہ ہو گیا ہوں تو پھر تم میری گمراہی کی وجہ سے ساری امت محمد کو گمراہ کیوں کہتے ہو۔‘‘[1] ٭پھر یہ طعنہ گر یہ بھی کہتا ہے کہ وہ اجماع جس کا یوم سقیفہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے انتخاب اور آپ کی بیعت کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے وہ بیعت جو کہ بعد میں مسجد میں ہوئی، یہ دعویٰ بلا دلیل ہے۔ یہ اجماع کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت علی، حضرت عباس، دیگر تمام بنی ہاشم، ان کے علاوہ اسامہ بن زید، زبیر، سلمان الفارسی، ابوذر الغفاری، مقداد بن الاسود، عمار بن یاسر، حذیفہ بن الیمان، خزیمہ بن ثابت، ابو بریدہ الاسلمی، براء بن عازب، ابی بن کعب، سہل بن حنیف، سعد بن عبادہ، قیس بن سعد، ابو ایوب الانصاری، جابر بن عبداللہ اور خالد بن سعید رضی اللہ عنہم کے علاوہ اور بہت سارے لوگ تھے، جو اس بیعت میں شریک نہیں ہوئے۔ تو اللہ کے بندو! وہ خود ساختہ اور خیالی اجماع کہاں ہے؟ اگر صرف حضرت علی بن ابی طالب اکیلے ہی اس اجماع میں شریک نہ ہوئے ہوتے تو پھر بھی یہ اس پر طعن و تنقید کے لیے کافی تھا۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آپ خلافت کے لیے اکیلے نامزد امیدوار تھے، یہ بھی اس صورت میں ہے جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ آپ کے وجود پر کوئی براہ راست نص موجود نہیں ۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پیچھے رہنے والوں کے نام بذیل مصادر کی طرف منسوب کیے ہیں : تاریخ الطبری، تاریخ ابن الاثیر، تاریخ الخلفاء، تاریخ الخمیس، الاستیعاب اور انکے علاوہ جن مورخین نے بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا تذکرہ کیا ہے اور کتاب کے کسی جز یا صفحہ کا نام نہیں لیا کہ کون سے
Flag Counter