آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے: ’’تم یہ جان لو کہ تم ان ابناء طلقاء میں سے ہو جن کے لیے خلافت حلال نہیں اور نہ ہی ان میں شوری ہو سکتی ہے۔‘‘[1] ایسے ہی حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنے صلح نامہ میں کہا تھا: ’’یہ وہ صلح نامہ ہے جو حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما اور معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کے مابین طے پایا ہے۔ ان کے مابین صلح اس بات پر ہوئی ہے کہ وہ مسلمانوں کی امارت اس کے سپرد کر دیں گے اور وہ لوگوں کے مابین کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور سیرت خلفائے راشدین کے مطابق چلیں گے اور معاویہ بن ابوسفیان کو اپنے بعد کسی کو ولی عہد بنانے کا اختیار نہیں ہو گا اور مسلمانوں کی امارت ان کے مابین شوری سے طے پائے گی۔‘‘[2] کیا آپ کا اس کے بعد بھی یہی خیال ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا ان کے بیٹے اللہ تعالیٰ کی طرف سے امام تھے، جب وہ تو مبداء شوری کا اقرار کرتے ہیں ، اورمسلمانوں کی امامت کو اسی شوری سے مستمد مانتے ہیں اور وہ کسی ایسی نص کا ذکر تک نہیں کرتے کہ ان میں سے کسی ایک نے وہ نص اپنی خلافت پر پیش کی ہو۔ حالانکہ وہ اس وقت اتنے اختلافات سے گزر رہے تھے اوریہ ایسا مرحلہ تھا کہ اگر کوئی ایسی نص موجود ہوتی تو اس کے بیان کرنے کی بہت سخت ضرورت تھی تاکہ وہ حضرت معاویہ کے دعوی کا رد کر سکیں کہ اہل شام کا ان کی بیعت پر اجماع نہیں ہوا۔ تو کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کوئی ایسی بات کہی مثال کے طور پر اہل شام کے انتخاب، یا ان کی بیعت کی کوئی قدر و منزلت یا قیمت ہی نہیں ؟ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری خلافت پر نصوص موجود ہیں ؟ یا پھر آپ نے اپنی بیعت پر اہل مدینہ کے اجماع سے دلیل پیش کی؟ حتیٰ کہ آپ نے اپنی خلافت کی مشرعیت کو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت پر قیاس کیا اور یہ کہ ان کی بیعت میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی تھی اور یہ حضرات خلفائے راشدین رضي الله عنهم تھے اور اس بات کے حق دار تھے کہ بعد میں آنے والوں کو ان کی اتباع کی دعوت دی جائے اور ایسا نہیں تھا کہ انہوں نے کسی دوسرے کا حق مارا ہو اور آپ نے اس مسئلہ میں قرآن کریم کے منہج کو برقرار رکھا تھا۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ﴾ (آل عمران: ۱۵۹) ’’اور کام میں ان سے مشورہ کر۔‘‘ اور فرمایا: |
Book Name | دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین |
Writer | قسم الدراسات والبحوث جمعیۃ آل واصحاب |
Publisher | دار المعرفہ ،پاکستان |
Publish Year | |
Translator | الشیخ شفیق الرحمٰن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 406 |
Introduction |