Maktaba Wahhabi

250 - 406
’’ مدینہ میں میری بیعت تمہارے شام میں رہتے ہوئے تم پر لازم ہے۔ اس لیے کہ اس قوم نے میری بیعت کر لی ہے جس نے حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضي الله عنهم کی بیعت کی تھی اور جس چیز پر بیعت کی تھی۔ حاضرین کے لیے اب کوئی اختیارباقی رہا ہے اور نہ ہی غائب اس کا انکار کر سکتا ہے۔ بے شک شوریٰ مہاجرین و انصار میں ہے۔ اگر یہ ایک آدمی پر جمع ہو کر اسے امام کا لقب دے دیں تو اس میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے۔اور اگر کوئی باہر نکلنے والا کسی دعویٰ یا بدعت کی بنیاد پر ان کا ساتھ چھوڑ کر باہر نکلے تو اسے واپس لایا جائے اور اللہ تعالیٰ اسے اسی طرح پھیر دے گا جس طرف وہ مڑ چلا ہے اور پھر اسے جہنم کی آگ میں ڈال دیا جائے گا جو کہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔‘‘[1] آپ کا عقیدہ تو یہ ہے کہ مہاجرین و انصار کا کسی انسان پر متفق ہونا اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی نشانی ہے۔ بلکہ آپ ان کی رضامندی کے بغیر اپنی بیعت کو کار آمد نہیں سمجھتے تھے۔ جیسا کہ آپ کا فرمان ہے: ’’ میری بیعت مسلمانوں کی اعلانیہ اور اجتماعی رضامندی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔‘‘[2] آپ یہ بھی فرماتے ہیں :’’ اور ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں گمراہی پر لگا دے اور نہ ہی انھیں اندھے پن کی وجہ سے کوئی نقصان ہو گا۔‘‘[3] اور آپ نے ایک دوسرے موقعہ پر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا ہے: ’’تمہارے شام میں ہوتے ہوئے مدینہ میں میری بیعت تجھ پر لازم ہے، جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مدینہ میں بیعت شام میں تجھ پر لازم ہوئی تھی اور اس وقت تم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے امیر تھے اور جیسا کہ شام میں تمہارے بھائی یزید پرمدینہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت لازم ہوئی تھی اور وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے امیر شام تھے۔ رہ گیا تمہارا یہ کہنا کہ میری بیعت درست نہیں ہے اس لیے کہ اہل شام اس بیعت میں داخل ہی نہیں ہوئے تو معاملہ یہ ہے کہ بے شک بیعت ایک ہی ہوتی ہے جو کہ حاضر اور غائب دونوں پر لازم ہوتی ہے اس میں کسی کو استثناء حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں دوبارہ چناؤ ہو سکتا ہے۔ اس بیعت سے خروج کرنے والا طعن زنی کرنے والا ہے اور اس سے پیچھے رہنے والا مداہن ہے۔[4]
Flag Counter